واہ تیرا یہ بندر بانٹ -حمل بلوچ

200

واہ تیرا یہ بندر بانٹ

تحریر۔ حمل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

شدید حیران کردینے والی بات تھی کہ نظر پڑتے ہی ساری تحریر ایک ہی سانس میں پڑھ کر جب آنکھوں میں آنسو، دل میں غم، اداسی اور ملال کے جذبات ابھر آئے تو آنسو ٹپک ٹپک کر میرے سینے پہ گرنے لگ گئے تھے اور میں پاکستانی فوج سمیت اعلٰی حکمرانوں اور اس مظلوم قوم کو کوس رہا تھا جن کے آنکھوں کے سامنے بلوچستان کو دو ٹکڑوں میں بانٹ دی گئی ہے۔ وہ تحریر جس میں بلوچستان کو دو حصوں میں بانٹ کر مغربی اور مشرقی بلوچستان لکھ دی گئی تھی، شاید وہ ہر پڑھنے والے کی نظر سے گزر کر کچھ التجائیں، صدائیں اور سسکیاں لیکر گزری ہوگی۔

کیا کسی محکوم اور مظلوم قوم کی اس درجے تک زوال آنی تھی کہ پہلے جنکے خون سے اس سرزمین کو دھو کر پاک کردیا گیا مگر خاک! جب تک سامراجی جوتوں کی ٹاپ اور مٹی بلوچستان میں جمی رہیگی تب تک یہ دھرتی پاک ہرگز نہیں ہو سکتی۔ عظیم قتل عام اور اغواء کاریوں کے بعد اب بلوچستان کے سینے پہ چھری رکھ کر اس دھرتی کو دو حصوں میں ایسے کاٹا جارہا ہے کہ ایک لاش اور بے جان بن کر بھی ہر چٹختے ہوۓ قطرے سامراج کا پیٹ بھر دیں اور ان بھوکوں کو سیراب کردیں۔ بلوچستان شاید وہ واحد شے ہے جسکی تڑپتی، سسکتی لاش کے ہر ٹکڑے سے دشمن کو فائدہ پہنچتی ہے.

ہاۓ میرا بلوچستان!
پہلے پہل یہ الزام انگریزوں کے سر جاتا ہے کہ انھوں نے آکر بلوچستان کو براھوئی و بلوچ کے نام سے دو حصوں میں تقسیم کرنے کی سر توڑ کوشش کی اور کسی حد تک کامیاب بھی ہوۓ مگر یاد رہے کسی قوم کو انکی ادب اور زبان کی بنیاد پہ تقسیم کرنا اس قوم کی آبروریزی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ انگریز تو چلے گئے مگر ایک وباۓ ناگہاں، ایک پالیسی چھوڑ کر گئے کہ تقسیم کرو اور حکمرانی کرو! تب سے اب تک اسلامک اسٹیٹ آف پاکستان نے بھی انگریزوں کا شیوہ اپنا کر ایسی ہزاروں پالیسیوں سے بلوچ قوم کو کچل ڈالنے کی چند کامیاب کوششیں کی ہیں۔

کبھی سیڈکشن آپریشن (لالچ دینا) تو کبھی مارواور پھینکو، کبھی ڈیتھ اسکواڈ ، تو کبھی شہیدوں کی لہو سے تر یہ سرزمین۔ پھر بھی نوجوانوں کی قربانیوں پہ آنکھیں نم مگر ہونٹوں پہ مسکان تھی کہ بلوچستان کیلۓ ایسی ہزاروں جان قربان۔

مگر اب کیا جب خود ماں قربان ہورہی ہو جس نے بالاچ، اکبر و قمبر جیسے بہادروں کو جنا ہے؟ اب ہو بھی کیا سکتا ہے جب خود اس سرزمین کو بلوچستان کے بجاۓ مغربی و مشرقی بلوچستان کے نام سے پکارا جارہا ہے؟

کیا ایسا وقت بھی آنے والا ہے جب گوادر کو وفاق کا حصہ تصور کیا جاۓگا؟ یہ سوال تو خیر بےسود ہے کیونکہ گوادر پر پابندی، سیلنگ اور وہاں کے رہنے والوں کو وہاں سے روکے رکھنے کا مطلب وہاں کی زمین کو وفاق کا حصہ بنایا جانا! بلوچستان کے سیاسی رہنماؤں سے کوئی اچھی توقع تو ہر گز نہیں کی جاسکتی مگر اب عوام کی خاموشی سے بھی گھن آنے لگتی ہے۔

کسی ملک کی سب سے بڑی طاقت اسکی غیور عوام ہیں اور یہاں شاید ہر شخص زِپ کھول کر ظلم جبر اور بندر بانٹ کی چھری کھانے کو بند آنکھوں سے تیار ہے مگر منہ کھولنے کیلۓ نہیں۔

مگر یاد رہے، بلوچستان کے ٹکڑوں میں بٹنے کا مطلب ان انگریز آلہ کار، امریکن پسند اور یورپین غلام ملک پاکستان کو اپنی چندے اور ادھار میں ملنے والی عزت سے ہاتھ دھونا ہے۔

بصیرتِ مآب! بلوچستان ایک واحد قوم “بلوچ” کی ملکیت ہے جہاں سراوان و جھالاوان میں رہ کر براھوائی بولنے والے، مکران و کوہ سلمیمان میں بلوچی بولنے والے اور لسبیلہ میں لاسی بولنے والے بلوچ بھی شامل ہیں۔ تو وہی رخشان و کچھی میں رہنے والے بھی اس قوم کے عظیم سرماۓ اور معمار ہیں۔ لحاظہ بلوچستان کو مغرب و مشرق، شمال یا جنوب کے نام سے ٹکڑوں میں بٹنے کی ہرگز کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی نا ہی اس سے بلوچ قوم کا کوئی فرد خوش ہے۔ اس نعرے کو قولی اور فعلی طور پر ناکام بنانے کا ہر حد تک تگ و دو کیا جاۓگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں