نیلسن منڈیلا – انقلابی ورثہ

1590

نیلسن منڈیلا

تحریر: جاوید مصباح

دی بلوچستان پوسٹ – انقلابی ورثہ

جب وہ اُس دروازے کی طرف بڑھے جو آزاد فضا میں کُھلنا تھا تو اس سے قبل فیصلہ کر چکے تھے کہ ’اگر آج میں نے اپنی نفرت اور تلخ یادوں کو یہیں نہ چھوڑا تو ہمیشہ قیدی رہوں گا۔‘

تقریبا 27 سال بعد رہائی کے وقت یہ خیالات رکھنے والی شخصیت دوران قید جھنجھلاہٹ کے اس دور سے بھی گزری جب شریک حیات کو خط میں لکھا:

’میں غصے میں لال ہو رہا ہوں، جسم کا ہر حصہ، ہر ہڈی، میری روح، خون کی نالیوں میں بے تحاشا نفرت بھر چکی ہے۔ میں اتنا بے بس کیوں ہوں کہ ان مشکل حالات میں آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتا۔‘

بچوں کو لکھا:’تمہیں شاید لمبے عرصے تک یتیم کی زندگی گزارنا پڑے، اب نہ تو برتھ ڈے ہو گا ، نہ کرسمس پارٹی، نئے ملبوسات ملیں گے اور نہ ہی نئے کھلونے۔‘

نسل پرست انتظامیہ نے انہیں والدہ اور جوان بیٹے کی اچانک موت کی خبریں تو دیں لیکن جنازوں میں شریک نہیں ہونے دیا۔

 لیکن اس کے باوجود اپنے اس تصور ’برابری‘ سے پیچھے نہیں ہٹے جس کے بارے میں کہتے تھے کہ ’اس کو حاصل کرنے کے لیے جینا چاہتا ہوں تاہم مرنا بھی پڑے تو تیار ہوں۔‘

ایک سو تین سال قبل یعنی 18 جولائی 1918 کے دن جنوبی افریقہ میں پیدا ہونے والے سیاہ فام بچے کو پہلے امتیازی سلوک کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب سکول میں داخل کرایا گیا۔ ان کا خاندانی نام رولیلاہل منڈٰیلا تھا لیکن اس وقت کے قانون کے مطابق داخلے کے لیے انگریزی نام ہونا ضروری تھا اس لیے ٹیچر نے نیلسن لکھ دیا۔

نوجوانی کی دہلیز پر قدم دھرنے تک وہ، وہ تمام زیادتیاں بھگت چکے تھے جو سیاہ فاموں کے ساتھ ہوتی تھیں۔ ان کو سفید فاموں کے مقابلے میں کمتر سمجھا جاتا تھا۔ بطور غلام خریدوفروخت عام تھی۔ ووٹ کا حق نہیں تھا۔

وقت کے ساتھ ساتھ منڈیلا میں احساس محرومی بڑھتا رہا۔ یہ نوآبادیاتی دور تھا۔ انہوں نے حقوق کے لیے آواز اٹھانا شروع کی۔ جلد ہی انتظامیہ کی نظروں میں آئے اور پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع ہوا۔

ان پر روز مقدمے بنتے۔ ہر بار رہا ہونے پر گھر جانے کے بجائے تحریک میں سرگرم ہو جاتے۔ چونکہ سفید فام سرکار ان پر خاص نظر رکھتی تھی اس لیے وہ بھیس بدل کر مختلف شہروں میں جاتے اور زیادہ تر رات کے وقت نکلتے۔

مقامی انتظامیہ نے ان کا کوڈ ’کالا جنگلی‘ رکھا ہوا تھا، پولیس کے ساتھ ان کی آنکھ مچولی چلتی رہتی۔ اس وقت یورپین اخبار ان کوBlack pimpemel لکھتے تھے جو ایک پودے کا نام ہے جبکہ یہ ماضی کا وہ کردار بھی ہے جس نے فرنچ انقلاب کے دوران بھیس بدل کر بے شمار لوگوں کو ’گلوٹین‘ سے بچایا تھا۔

وہ انسانی حقوق کے اس قدر علمبردار تھے کہ ایک بار کہا کہ ’کبھی سیاہ فاموں نے بھی نسلی امتیاز کا سہارا لیا تو ان کے خلاف کھڑا ہو جائوں گا۔‘

40 کی دہائی کے آغاز تک وہ گرتے پڑتے وکالت کی تعلیم تک پہنچ چکے تھے وہ کلاس میں واحد سیاہ فام تھے۔ انہی دنوں افریقی نیشنل کانگریس کے جلسوں میں شرکت شروع کی اور جب 1944 میں افریقن کانگریس یوتھ لیگ قائم ہوئی تو اس کے سرگرم رکن کے طور پر سامنے آئے۔

مارچ 1960 میں ایک احتجاج پر گولی چلائی گئی جس سے 59 سیاہ فام ہلاک اور چار سو زخمی ہوئے۔ اس سے تحریک کو مہمیز ملی، سیاہ فاموں نے احتجاجاً شناختی پاس جلانا شروع کر دیے جس پر دنیا کا میڈٰیا اس جانب راغب ہوا۔

پانچ اگست 1962 میں پھر گرفتار ہوئے۔ دو برس تک مقدمہ چلا اور عمرقید سنا کر جزیرہ روہن میں قید کر دیا گیا۔ یہاں وہ 1982 تک رہے۔ پھر جیل منتقل کیے گئے۔

اے این سی ان کی رہائی کے لیے تحریک چلاتی رہی۔ اس دوران حکومت نے اے این سی کے ساتھ مذاکرات شروع کیے۔ 1989 میں پہلے صدر بوتھا اور بعدازاں صدر ایف ڈبلیو ڈی کلارک نے منڈیلا سے ملاقات کی اور گیارہ فروری 1990 میں ان کو رہا کر دیا گیا۔

1993 میں ان کو نسلی امتیاز کے خلاف جدوجہد پر امن کا نوبیل انعام دیا گیا۔  1994 میں سیاہ فاموں کو برابری کے حقوق دے کر انتخابات منعقد کرائے گئے اور نیلسن منڈیلا صدر منتخب ہو گئے۔

صدر بنتے ہی اعلان کیا ’سرکاری عہدوں پر کام کرنے والے تمام سفید فام کام جاری رکھیں، کسی کو فارغ نہیں کیا جائے گا۔ وہ بھی ملک کے برابر شہری ہیں۔ آج کے بعد میرا کوئی ذاتی یا سیاسی مخالف نہیں۔ میں اس ملک کا عام شہری ہوں، میرے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جائے جو عام شہری کے ساتھ ہوتا ہے‘ وہ چاہتے تو مخالفین سے ایسا انتقام لے سکتے تھے کہ دنیا یاد کرتی لیکن انہوں نے جو کیا وہ بھی کبھی دنیا بھلا نہیں سکے گی۔

پانچ سال تک ایسے اقدامات کیے کہ ملک امن کا گہوارہ بنا۔ جس کا ثبوت کرکٹ، فٹ بال اور رگبی کے عالمی کپس کی میزبانی ہے۔ انہوں نے کینسر کی تشخیص کے بعد مصروفیات سے ریٹائرمنٹ لی اور باقی وقت فیملی کے ساتھ گزارا۔ پانچ دسمبر 2013 کو 95 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔

موت کے بارے میں نیلسن منڈیلا کہا کرتے تھے ’جب انسان وہ ذمہ داری پوری کر لیتا ہے جو قدرت نے اس کے ذمے لگائی ہوتی ہے تو سکون سے مر سکتا ہے، مجھے یقین ہے میں اپنی ذمہ داری نبھا چکا ہوں۔‘
2009 میں اقوام متحدہ نے 18 جولائی کو ’یوم منڈیلا‘ کے طور پر منانے کا اعلان کیا جو آج بھی منایا جا رہا ہے۔