نال کے نوجوان تعلیم کی زیور سے محروم
تحریر: اعجاز اسلم بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
نال ضلع خضدار کاتحصیل ہے ، آبادی کے لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو یہاں بہت بڑی آبادی موجود ہے۔ شرح خواندگی کی نسبت باقی علاقوں سے بالکل پیچھے ہے، اگر آج نال تعلیم کے حوالے سے دیگر علاقوں کی نسبت زیادہ پسماندہ ہے تو اسکا زمہ دار نال کے پڑھے لکھے نوجوان اور سیاسی و سماجی لوگ ہیں اگر ہم پچھلے چالیس سال کے دور پر نظر دوڑائیں تو ہمیں بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو کی سیاست اور فلسفہ یاد آتا ہے.
اہلیان نال آج بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو کی قربانیوں کو یاد کرتے ہیں، آپ نے نال میں تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کیلئے بہت سی قربانیاں دی ہیں۔
لیکن آج کل کے سیاستدانوں کو پتہ تک نہیں کہ نال تعلیم کے حوالے سے کتنی پسماندگی کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ نال لاواث ہے یہاں کے نوجوان تعلیم سے دور ہوتے جارہے ہیں۔
ایک زمانے میں جب نال کا زکر آتا تھا تو کچھ ایسے شخصیتوں کی قربانیاں نظر آتی تھیں۔ جن کے قربانیوں کی وجہ سے نال میں تعلیمی سرگرمیاں کچھ بہتر نظر آتی تھیں۔
تعلیم کے ساتھ ساتھ طلباء سیاسی سرگرمیاں بھی ہوتی تھیں اور علاقے میں کتاب کلچر کو فروغ حاصل ہونے کے ساتھ اسٹڈی سرکلز بھی منعقد کئے جاتے تھے۔
انہی شخصیت کے بعد اب نہ وہ اسٹڈی سرکلز منعقد ہورہے ہیں اور نہ ہی تعلیم کے میدان میں کوئی قابل زکر کام ہو رہا ہے۔ جنہوں نے اس علاقے کے لوگوں کی شعوری بیداری کیلئے انتھک محنتیں کی تھیں۔ آج ہمیں انہیں شخصیت کے فلسفے پر کام کرکے نال میں تعلیمی، علم وادبی اور سیاسی وسماجی سرگرمیوں کو فروغ دینا ہے۔
اُس فلسفےکو زندہ رکھنے کیلئے میں نوجوانوں سے درخواست کرتا ہوں جو بڑے بڑے شہروں جیسے کراچی کوئٹہ، ملتان، پنجاب میں اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں، نال کے لئے جو کچھ کرنا ہے ہمیں اور آپ کو کرنا ہے ہم جب یونیورسٹیوں سے فارغ ہوتے ہیں یا ہمیں دو تین مہینے کا چھٹی ملتا ہے تو ہم اپنی چھٹیاں شہروں کے بدلے اپنے علاقے میں آکر گزاریں اور علاقے میں تعلیمی پروگرامز منعقد کریں تاکہ ہمارے علاقے کے آنے والے نسل تعیلم سے آگاہ ہوجائیں۔ اور وہ دوسرے بُرے کاموں سے دور ہوجائیں۔ جب ہمیں یونیورسٹی سے چھٹیاں ملتی ہیں تو یہ ہماری زمہ داری بنتی ہے کہ ہم یہاں آکر بُک اسٹال لگائیں لٹریری فسٹیول منعقد کریں۔ جس سے ہمارے علاقے کے نوجوان استفادہ حاصل کر سکیں۔
جیسے کہ کچھ دن پہلے ہمارے نوجوانوں نے یہاں ایک سیمینار منعقد کیا تھا اس سیمنار میں بہت سے نوجوان اور فیمیل اسٹوڈنس نے شرکت کی تھی۔ جو نال کے عوام کیلئے باعث فخر ہے کہ ہماری بہنیں بھی ہمارے ساتھ تھیں اور وہ بھی پڑھنا چاہتے ہیں وہ بھی آگے آنا چاہتے ہیں ہمیں اب ہمارے گھروں میں تعیلم کی تبلیغ کرنا چاہیئے۔
جب بھی تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر دیکھو تو ان میں نوجوانوں کی قربانیاں ہی ملتی ہیں، انقلابی تعلیم انہی نوجوانوں نے لایا ہے تو آج ہم کیوں اپنے علاقے میں انقلابی تعلیم کو لانے میں پیچھے ہیں۔ اب ہمیں اٹھنا ہوگا اپنے علاقے میں تعلیمی انقلاب لانا ہوگا۔ ہمیں اپنے ان نظریات کو کو زندہ کرنا ہوگا، جس سے ہماری قومی بقا وابستہ ہے۔ ورنہ ہمارا آنے والا نسل کبھی ہمیں معاف نہیں کرے گا کیونکہ ہم نے اپنا پورا ایک نسل کھو دیا ہے جو آج کل نشہ اور دوسرے سماجی برائیوں کی شکل میں ہمارے اور آپ کے سامنے ہیں۔ اب ہمیں ان جیسے عظیم شخصیتوں کے فلسفے کو زندہ کرنا ہوگا۔ جس سے ہمارے نوجوانوں میں شعور بیدار ہو۔ آج ہمیں وہی نظریہ زندہ کرنا ہوگا۔ تعلیمی سرگرمیوں کو فروغ دینا ہوگا تاکہ علاقے کے لوگوں میں شعور بیدار ہو کر سماجی برائیوں کا خاتمہ ہو اور علاقہ ترقی کی طرف گامزن ہو۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں