مذاکرات کا ہتھیار اور بلوچ جہد کار
تحریر: ملا امین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ قوم گذشتہ کئی سالوں سے اپنے سر زمین پر مرگ و زیست و اپنے بقا کی جنگ لڑ رہا ہے، قابض ریاست اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود بھی اسے روکنے اور دبانےمیں ناکام رہا ہے، بلوچ اپنی اس جنگ کو بے سرو سامانی کے حالات میں مختلف طریقوں سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ماضی کے واقعات اور آج کی صورتحال ہمارے اور آپ کے سامنے ہیں کہ قوم اس ظلم کے خلاف کس قدر متحد اور متحرک ہے۔ ریاست ہمیشہ ہمارے کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتا رہا ہے اس لیے وہ اپنے قبضے کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوا ہے جس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے ہمارے سادہ لوح، لاچار اور بے بس لوگ جن کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں وہ آجوئی (آزادی) کی اس جنگ کو کس طرح جاری رکھ سکتے ہیں۔
کمزوری کی دوسری وجہ وہ تمام قبائلی سردار اور میر و معتبر رہے جو اپنے علاقے اور اپنے قبائل کے اندر اثر و رسوخ رکھتے تھے انہوں نے بلوچ و بلوچستان کے مستقبل کا نہیں بلکہ اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر فیصلے کئے جبکہ ریاست کےلئے ایسے لوگوں کا خریدنا کافی آسان ثابت ہوا کیونکہ جن مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے ہزاروں فوجیوں، سکیورٹی اہلکاروں، جنگی جہازوں،ںہتھیاروں اور فوجی کاروائیوں کی ضرورت پڑتی تھی وہ صرف ایک سردار کو خرید کرکامیاب ہوا، ہر سردار اپنے قبیلے کے لوگوں کو بلیک میل کرنے اور ڈرا دھمکا کر انہیں قومی جنگ سے دور رکھنے میں دشمن سے بھی دو قدم آگے نکلے کیونکہ ایک آذاد وطن میں وہ اپنی سرداری حیثیت سے دستبرداری کو واضح دیکھتے تھے، وہاں ان کی زندگی صرف ایک عام شہری کی طرح ہوگی۔
ان کے پاس وہ اختیارات نہیں ہونگے جو انہیں خاندانی و مورثی حساب سے حاصل ہیں یا ریاست نے انہیں اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لیے دیا تھا۔ وہ کس طرح اپنے اتنے وسیع وعریض اختیارات کو چھوڑ سکتا ہے، جو اسے وراثت میں ملے تھے انھوں نے قابض ریاست کے ساتھ مل کر ہر طرح کے حربوں کو استعمال کیا لیکن
بلوچ قوم نےبھی اپنے آجوئی کی جنگ کو مختلف طریقوں سے جاری رکھا اور حوصلے کے دامنِ کو نہیں چھوڑا وہ ہمیشہ قابض اور اس کے حواریوں کے ساتھ ہر وقت نبردآزما ہوئے، جو اس جنگ کو ناکام بنانے میں پیش پیش تھے۔ اس طرح بلوچ قوم نےان مفاد پرستوں اور جنگی منافع خوروں سے بھی اپنی قانونی جنگ جاری رکھی جو بلوچ قومی تحریک کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کررہے تھے اس طرح بلوچ آزادی کے فکر کو آگے لے جانے والے دوسروں نے ان منافع خور لوگوں کا راستہ روکنےمیں کافی حد تک کامیاب ہوئے۔
بلوچ قوم ابھی تک اپنے وطن کو آزاد کرانے اور اپنی جدا گانہ حیثیت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہواہے البتہ جنگ کو اپنے آنے والے نسل کے ہاتھوں پہنچانے میں کامیاب ضرور ہوا ہے۔ آج کی جنگ قبائلیت سے پاک اور قومی شعور سے لیس عام سے بلوچ نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہے اگر اس جدوجہد کے اندر کوئی خاندانی اعتبار سے با اثر ہے بھی تو وہ اس جہد کے اندر ایک کارکن اور عام سنگت تصور کیا جاتا ہے۔ وہ تن تنہا یا انفرادی طور پر قوم کے مستقبل کا فیصلہ نہیں کر سکتا ہے۔ اس طویل جنگ نے بہت سے چیزوں کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا جو اب قابض ریاست کیلئے اپنا قبضہ برقرار رکھنے میں درد سر بنے ہوئے ہیں۔
ریاست کو اس کا کچھ بھی اندازہ نہیں ہو رہا کہ اب اس کو کونٹر کرنے کے لیے کس کو بغل گیر کیا جائے اور بلوچ قوم کو مزید کس طرح دھوکے میں رکھا جائے تاکہ وہ اپنے لوٹ مار کو جاری رکھے۔ یہ امر اس بات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بلوچ قومی تحریک آزادی کی جنگ کو روکنے کےلئے شازین بگٹی کو افغانستان کے ظلمی خلیل زاد سمجھنے کی غلطی کر رہا ہے۔ وہ کام ریاستی دلال ثناء اللہ زہری، چنگیز مری، خالد لانگو، یار محمد رند ،کمال بنگلزئی، اختر مینگل ،ڈاکٹر مالک ، اسلم رئیسانی نہ کرسکے وہ شازین بگٹی کیا کرسکیں گے جس کے پاس اپنی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ جسے کچھ عرصہ قبل انھیں ایک عام سے ایف سی کے سپاہی نے گردن سے پکڑ کر ایک جیب کترے، اسٹریٹ چور کی طرح اٹھا کر اپنی گاڑی میں پھٹک دیا۔ وہ آج پاکستان اور بلوچستان کے درمیان ثالیثی کا کردار ادا کرکے تمام جہد کاروں کو ہتھیار ڈالنے پر قائل کر سکے گا؟
جو جو اپنی قومی تشخص اور اپنے قومی بقا کے اس جدوجہد سے دستبردار ہوں گے، باشعور بلوچ ان کی پہچان کر لینگے اور ان کی حیثیت محض ردی کے برابر ہوگی۔ قابض اور مقبوضہ کے بیچ حتمی فیصلہ اس بات پر ہی آکر منتج ہوگی کہ وہ ہماری سرزمین سے دستبردار ہو جائے، بلوچوں سے قابض کی شرائط پر مذاکرات کے نام پر یہ دھوکا بھی پچھلے ہونے والے دھوکوں کی طرح ناکام ہوگا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں