قید سماج میں قیدی نوجوان
تحریر: کمبر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ہم بلوچستان کے بعض علاقوں میں سماج کا جائزہ لیں تو سماج کو قید پائینگے جسکی ایک اہم وجہ ہمارے نوجوان کا ذہنی حوالے سے قید ہونا ہے۔
اسکا ذہن قید ہے قبائلیت میں مذہب میں روایتوں میں ان موضوعات کو گہرائی سے دیکھنا اور ان پر وقت کے مطابق عمل کرنا کوئی غلط عمل تو نہیں لیکن ہمارا آج کا نوجوان یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ ایک بد تہذیب ریاست کس طرح اپنے مفادات کی خاطر ہمارے سماج کو قید میں رکھنے کے لیے ہماری قوم پر مذکورہ موضوعات کو اپنے ہی طریقے سے رنگ دے کر لاگو کر رہا ہے۔
ہمارے نوجوان کو تو انڈپنڈنٹ ہونا ہے اسے ارتقائی عمل کے ساتھ ساتھ خُود میں تبدیلی لانا ہے فرسودہ سوچ و روایتوں کی قید سے آزاد ہونا ہے ذہنی ہوالے سے آزاد ہونا ہے۔
ہمارا نوجوانوان اب تک خود شناس نہیں ہمارا نوجوان تو اب تک فیصلہ لینے کی سکت نہیں رکھتا اسے تو نہ صرف خود کے لئے بلکہ قوم کے لئے بھی فیصلہ سازی کرنا ہے۔
بعض دفعہ بیٹھکوں میں نوجوانوں سے سننے کو ملتا ہے کہ ہم فیملی کی طرف سے مجبور ہیں اس لئے ہم تحریک کی حمایت اور قومی جدوجہد کی پرچار نہیں کر سکتے۔
یہ سن کر دل پھٹتا ہے کہ قومی جدوجہد میں بھی ہمیں اجازت درکار ہے ہوتی ہے۔ ان نوجوانوں سے گزارش ہے خدارا اپنی ذمہ داریوں کا تعین کریں اپنے قومی رہنمائوں کو مشعل راہ بنا کر اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے قومی آزادی میں حصہ ڈالیں بھلا ہر باپ انقلابی ہوتا ہے کہ وطن و قوم کی آذادی کے لئے ان سے اجازت کی امید رکھیں۔
ہمارے نوجوانوں کو ذہنی حوالے سے آزاد ہونا چاہئے انہیں سوچنا چاہئے صحیح اور غلط کے درمیان فرق کرنا چاہئے۔ ہر نوجوان خود اپنے قوم و وطن پر ایک نظر دھرائے حالات کیا ہیں کئی دھائیوں سے مادرِ وطن کے اوپر ایک شورش جاری ہے قوم کے کئی فرزند اپنی جان تک قربان کر گئے۔ کئی فرزند تب سے اب تک اپنی جائیداد فیملی پُر آسائش زندگی قربان کر کے پہاڑوں میں کیوں پڑے ہیں؟ روڈوں پر پریس کلبوں کے سامنے یہ سسکتی بلکتی ماں بہنیں کون ہیں یہ کس مقصد کے لئے ظالم کے سامنے گڑ گڑ اتے ہیں یہ سب کچھ سمجھنے کے لئے ایک نوجوان کو آزاد خیال ہو کر قومی جدوجہد میں اپنی بساط کے مطابق کردار ادا کرنا ہے یہاں خاندان سے دوستوں سے اجازت لینا نہیں ہوتا ہے یہاں آپ کو ایک انقلابی بن کر انقلابی اقدامات اٹھانے ہونگے اور ایک نوجوان کو انقلابی اسکے خاندان کی اجازت نہیں بناتا اس کے احساسات بناتے ہیں معاشرے کی حالت اور قوم کی محکومی انقلابی بنا دیتی ہے۔
خدارا اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں زندگی میں آپکا ایسے کئی بندوں سے سامنا ہوگیا ہوگا جو صرف اپنی مفادات کا سوچتے ہیں اور صرف خود کے لئے جیتے ہیں بھلا انسے ملاقات کے بعد آپ کتنے متاثر ہوئے؟یقینا اسکا جواب ہے کہ زرہ بھی نہیں اس بندے سے کون متاثر ہو سکتا ہے جو سماج، قوم اور وطن کے کام نہ آ سکے۔
زرا احساس کریں کہ ہماری بقاء کا مسئلہ ہے ہمارا وجود خطرے میں ہے وسائل سے مالا مال ہماری سرزمین اور ہماری قوم تیسری دنیا کے بھی پیچھے ازیت کی زندگی گزار رہا ہےبھلا اسکی وجہ کیا ہے اور بہتری کیسے آسکتی ہے کیا آپ بھی کسی ضمیر فروش کی طرح کسی سرکاری کارندے کا سہارا لے کر غلام کی غلامی کرتے رہینگے کیا آپ خود اور اپنے آنے والی کئی نسلوں کو محض خاندان ،دوست ،عزیز و اقارب کے اجازت کی انتظار میں مزید غلامی کی زندگی گزارنے دینگے لہذاٰ اپنی ذمہ داریوں کا تعین کریں اور مظبوط فکر کے ساتھ مستقل مزاجی سے قومی جدوجہد میں اپنا کردار ادا کریں۔
ہمارے گزرے رہنمائوں نے بار بار یہ کہا کہ وقت کوسمجھیں آپ غلام ہیں اس بات کو تسلیم کریں اور اس غلامی سے خود کو اور اپنے آنے والے نسلوں کو نکالنے کی تگ و دو میں رہیں اس کے لئے آپ کو ذہنی حوالے سے قربانی دینے کے لئے تیار رہنا ہوگا آپکو اپنا سب کچھ قربان کرنا ہوگا اپنے آنے والے دن کو روشن کرنے کے لئے اپنی مادر وطن کے لئے اپنے آنے والے نسلوں کے تحفظات کے لئے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں