عظیم ماں کے بہادر بیٹے
تحریر: بئیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
دنیا میں بہت سے جنگیں ہو چکی ہیں، بہت سے انقلابی لوگ ان جنگوں کا حصہ رہے ہیں، ہزاروں نے قربانی دے کر تاریخ کے پنوں پہ امر ہو چکے ہیں۔
آج میں آپ کو ایک ایسی عظیم ماں کے بارے میں بتانے جارہا ہوں جس نے اپنے ایک نہیں دو نہیں تین تین جوان بیٹوں کی قربانی دی ہے، ایسی عظیم قربانیاں بلوچستان کی بہت سی ماوں نے اپنے لخت جگر بیٹوں کو مادر وطن بلوچستان پر قربان کرکے دی ہیں۔
ایسے عظیم ماؤں کی جرات، ہمت اور عظمت کو سلام پیش کرتا ہو ایسی مائیں اپنے بیٹوں کو پیدا کرتے ہی وطن کی آزادی کی لوریاں سناتی ہیں اور اپنے وطن پر قربان ہونے کی سبق پڑھاتے ہیں اور میں ان جیسے عظیم مادر وطن کے بیٹوں کو بھی سرخ سلام پیش کرتا ہوں جو اپنے وطن کی خاطر اپنے جانوں کی کوئی پروا نہیں کرتے ہیں اور اپنے قوم پر ہر ظلم و جبر کے خلاف بہادری ایمانداری سے دن رات اپنے سرزمین اور اپنے قوم کی حفاظت میں ہر محاذ میں اول دستے میں کھڑے ہوتے ہیں اور ہر سرد گرم حالات میں میدان جنگ میں ہر وقت ہر لمحہ تیار کھڑے رہتے ہیں۔
اس ماں کے تین عظیم بیٹے مادر وطن پر قربان ہو کر تاریخ کی پنوں پہ امر ہوگئے ہیں جنہیں تاریخ میں ہمیشہ یاد کیا جائے گا۔
ان بھائیوں میں سب سے پہلے شہید واحد بخش مری تھے، جس نے اپنے مادر وطن کی دفاع میں اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے دشمن سے لڑتے ہوئے بلوچستان کے پایہ تخت قلات سے مزاحمت کی چنگاری کو جلایا 6 جنوری 2002 کو بلوچستان کے پایہ تخت قلات میں اپنے جان کی قربانی دے کر حالیہ جاری مزاحمت کے اولین شہیدوں میں سے ایک کا درجہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اپنے نام کیا ۔
شہید واحد بخش مری کی قربانی پر ان کے بھائیوں میں اور بھی وطن دوستی کا جذبہ، گہرا ہو چکا تھا جو ہر لمحے اپنے سرزمین کی دفاع کے لئے فکری اور جسمانی طور پر ہمیشہ تیار رہتے تھا ۔ قومی آزادی اور اپنے سرزمین کی حفاظت کے لئے قربانیاں دینے کے لئے ہر مشکل برداشت کرتے اور اپنے قومی نظریہ پہ ڈٹے رہتے ۔
شہید واحد بخش مری ایک مخلص اور باشعور نوجوان اور اپنے قومی فکر پر واضح سوچ رکھتے تھے۔ واحد بخش مری کی عمر تقریبا 24 سال تھا جب اس نے اپنے مٹی کے خاطر شہادت کا عظیم رتبے کو گلے لگاکر تاریخ میں امر ہو گیا۔
اس ماں کا دوسرا بیٹا 21 سالہ قاسم مری جنہیں ہم اسد مری کے نام سے جانتے ہیں۔ انہیں 29 دسمبر 2006 کو نیو کاہان کوئٹہ میں پاکستان کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی نے شہید کیا ۔
قاسم مری عرف اسد مری اپنے مادر وطن پر قربان ہونے والا کم عمر مگر قومی فکر سے سرشار اور نمایاں کردار کا مالک تھا ۔ شہید اسد مری پہلے شہید ہیں، جنہیں وادی چلتن کے دامن میں سپردِ خاک کیا گیا اور اسد مری پہلے وہ خوش قسمت فرزند ہیں جنہیں آزادی بلوچستان کے پرچم کے اعزاز کے ساتھ دفن کردیا گیا ہے۔
اس ماں کا تیسرا بیٹا 28 سالہ بابو مری 2020 کو تنظیمی مشن پر تھے۔
اچانک بابو مری کی شہادت کی تصدیق کرتے ہوئے ان کے خاندانی ذرائع نے بتایا کہ بابو مری دوران سفر ایک حادثے میں شہید ہوگئے، وہ ہم سے جسمانی طور پر جدا ہوگئے ہیں، یہ بات میرے لیے اور پورے بلوچ قوم کے لیے ایک بڑا سانحہ تھا۔
بابو مری بلوچ جدوجہد آزادی کے ایک سرگرم رکن تھے اور فکری طور پر ایک پختہ نظریاتی اور سنجیدہ کارکن کی حیثیت سے انھوں نے بلوچ قومی تحریک میں اپنا فرض بخوبی نبھایا. شہید بابو مری انتہائی خوش مزاج انسان تھے جو ہر وقت مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ رہتے تھے۔
بابو مری ایک تعلیم یافتہ شخصت تھے۔ وہ بابائے بلوچستان نواب خیر بخش مری کے عظیم شخصیت سے بہت متاثر تھے۔بابائے بلوچ کے فکر سے اتنے قائل تھے کہ ان کے ہر گفتگو میں بابائے بلوچ کی فکر کی جھلک موجود تھی۔ وہ ہمیشہ نواب خیر بخش مری کے بارے میں بات کرتے اور ان کے خیالات کے روشنی میں قومی جدوجہد کے سفر کو مزید توانا کرنے کی کوشش میں رہتے تھے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں