طالبان کے خلاف امریکہ کی فضائی بمباری

622

امریکہ نے کہا ہے کہ اس نے افغان سکیورٹی فورسز کی مدد کے لیے حالیہ دنوں میں طالبان کے ٹھکانوں پر فضائی بمباری کی ہے۔

پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ ’گذشتہ کئی دنوں میں ہم نے اے این ڈی ایس ایف (افغان فوج) کی مدد کے لیے فضائی حملے کیے ہیں۔‘

انہوں نے پریس بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا کہ اے این ڈی ایس ایف کی حمایت میں فضائی حملے جاری ہیں اور امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) کے سربراہ جنرل کینتھ میکنزی نے ان کی اجازت دی ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکہ نے ان حملوں کی تفصیل نہیں بتائی کہ کب اور کہاں کیے گئے البتہ انہوں نے وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کے بدھ کے بیان کا اعادہ کیا کہ امریکہ ’افغان سکیورٹی فورسز اور افغان حکومت کی پیش قدمی میں مدد کے لیے پرعزم ہے۔‘

امریکی فضائیہ طویل عرصے سے افغان سکیورٹی فورسز کو طالبان کے خلاف مدد فراہم کرتی رہی ہے لیکن خدشہ ہے کہ بین الاقوامی فوجیوں کے انخلا سے یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ افغانستان کی اپنی نوزائیدہ فضائیہ بھی عسکری کارروائیوں میں حصہ لے رہی ہے۔

بدھ کو امریکی جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے چیئرمین جنرل مارک ملی نے تسلیم کیا کہ طالبان اب افغانستان کے تقریباً 400 اضلاع میں سے نصف پر کنٹرول حاصل کر چکے ہیں لیکن انہوں نے واضح کیا کہ انہوں نے گنجان آباد اہم شہروں میں سے کسی پر بھی قبضہ نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ 31 اگست تک مکمل ہونے والا امریکی انخلا 95 فیصد تک مکمل ہوچکا ہے۔

امریکی قیادت میں غیر ملکی افواج کے انخلا کے مئی سے آغاز کے بعد عسکریت پسندوں نے حکومتی فورسز کے خلاف کارروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔

جمعرات کو طالبان کے ترجمان نے روسی ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ ان کے گروپ نے افغانستان کی 90 فیصد سرحدوں پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ تاہم اس دعوے کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کی جاسکی۔

افغانستان کے ایک ٹی وی چینل نے خبر دی ہے کہ طالبان نے پاکستان کے ساتھ جنوبی سرحدی مقام سپین بولدک پر قبضے کے بعد بڑی تعداد میں مخالفین کا قتل کیا ہے۔

اس خبر کو افغانستان کے نائب صدر امر اللہ صالح نے بھی ٹویٹ کیا۔ تاہم آزاد ذرائع سے اس خبر کی تصدیق نہیں ہوسکی لیکن افغان ٹی وی چینل کے مطابق طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

ادھر تاجکستان نے جمعرات کو ملکی تاریخ کی سب سے بڑی مشق میں اپنی مسلح افواج کی جنگی تیاریوں کا جائزہ لیا ہے۔

ہمسایہ ملک افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی کے تناظر میں اس وسطی ایشیائی ملک کی سکیورٹی فورسز کے دو لاکھ 30 ہزار ارکان کو صدر ایمومالی رخمون کے حکم پر صبح چار بجے کو جائزے کے لیے الرٹ کیا گیا۔

 دوشنبے نے افغانستان کے ساتھ سرحد پر اپنی عسکری طاقت کو مضبوط بنانے کے لیے 20 ہزار فوجی تعینات کیے ہیں۔

طالبان نے تاجکستان کے ساتھ شیر خان بندر نامی سرحدی چوکی پر قبضے کا دعویٰ کیا ہے۔

یہ فوجی مشقیں سابق سوویت ملک کی 30 سالہ تاریخ میں اپنی نوعیت کی پہلی تھیں، جس میں تاجک فوج کے زیر استعمال تمام ہتھیاروں بشمول زمینی، ہوا بازی اور توپ خانے کی جانچ شامل تھی۔

یہ آپریشن تاجک سرکاری ٹیلی ویژن پر نشر کیا گیا اور اس کا اختتام رخمون کی سربراہی میں فوجی پریڈ کے ساتھ ہوا جس میں انہوں نے تاجکوں سے مطالبہ کیا کہ وہ خطے میں امن و استحکام کے دفاع کے لیے تیار رہیں۔

رخمون نے کہا کہ ہمارے ہمسایہ ملک افغانستان خصوصاً اس کے شمالی علاقوں میں صورت حال انتہائی پیچیدہ اور غیر یقینی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ دن بدن بلکہ لمحہ بہ لمحہ مزید پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔