سامراج اور سامراجی
کتاب ریویو:شیر خان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اولیانوف لینن 23 اپریل 1870 کو شہر سیمبرسک میں پیدا ہوئے۔ لینن کے والد کا نام ایلیا نلولاہی وچ اولیا نور تھا ۔ لینن پہلی سوشلسٹ ریاست اور عظیم سوشلسٹ انقلاب روس کا بانی تھا۔ وہ موسیقی سے لگاؤ کے ساتھ غیر ملکی زبان کا بھی شائق تھا،اس نے کم عمری میں ہی پڑھنا سیکھا۔ 1891 میں انہوں نے پیٹرسبرگ یونیورسٹی کے شعبہ قانون میں امتحان دے کر اول درجے کا ڈپلومہ حاصل کیا۔ 1892 میں لینن نے سمارا ضلع کی عدالت میں وکالت شروع کی، لینن وکالت کے کام سے زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے تھے کیونکہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ان کی ساری طاقت و توانائی مارکس ازم کے مطالعہ اور انقلابی سرگرمیوں کی تیاری میں صرف تھی۔
1892 میں اس نے سمارا میں پہلا مارکسی حلقے کا مطالعہ کیا اور اپنا مضمون “کسانوں کی زندگی میں نئی معاشی تحریک “لکھا۔ لینن کے نام سے کئی تحریریں مختلف جلدوں میں شائع ہو چکی ہیں۔ علمی طور پر سیاست کرکے انقلابی پارٹی بنائی جس کی وجہ سے جلاوطنی کاٹی ،جیل کی صعوبتیں برداشت کیں اور آخرکار سوشلسٹ روس کے بانی ٹہرے۔ آج ان کی وجہ سے سوشلسٹ نظام اور سوویت انقلاب ایک تاریخی حقیقت بن چکا ہے، جس کی قیادت عظیم لینن نے کی ہے۔ لینن نے 21 جنوری 1924کو وفات پائی۔ درحقیقت دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد سامراج کے لئیے سب سے بڑا خطرہ سوشل ازم نظام تھا جس کا داعی اور سرخیل سو ویت یونین تھا۔ جیسا کہ اس بارے میں لینن خود اس کتاب میں بیان کرتا ہے ۔
لینن اپنی اس کتاب ” سامراج اور سامراجی ” میں وضاحت کرتا ہے کہ سامراج کے نقطہ نظر کو واضح کرنے لیے ان عظیم طاقتوں کے بارے میں ٹھیک ٹھیک معلومات پیش کرنا ضروری ہے۔ چھ عظیم طاقتوں نے ڈھائی کروڑ مربع کلومیٹر کے علاقے پر زبردستی قبضہ اور 52 کروڑ تیس لاکھ آبادی کو غلام بنا رکھا ہے۔ مرکزی یورپ، برطانیہ اور امریکہ کے میں سرمایہ داری بہت زیادہ ترقی یافتہ ہے۔اور ان میں وہ تیں راستے شامل ہیں جن کا دنیا پر غلبہ اور تسلط ہے ، یعنی جرمنی، برطانیہ اور امریکہ۔ان ملکوں کے درمیان سامراجی رقابت اور کشمکش بے انتہا شدید اور تیز ہوچکی تھی۔
اجاراداری سامراج کی سب سے گہری معاشی بنیاد ہے جس نے سرمایہ داری کی بطن سے جنم لیا ہے۔انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کی ابتدا ہی میں یہ سرمایہ اس تک بڑھا کہ اس کی سرگرمیاں الگ الگ ملکوں سے نکل کر بین القوامی شکل اختیار کی اور اس سرمایہ دارانہ نظام نے اربوں لوگوں کو اس جال میں پھنسا لیا۔
واضح طور پر کہنا پڑ رہا ہے کہ آج برطانیہ کو جو چیز شکست دے رہی ہے، وہ بھی اجاراداری ہی ہے ، وہ بھی تو سامراج ہی ہے۔ بس فرق اتنا ہے کہ یہ دوسرے ملکوں کی سامراجی اور اجاراداری ہے۔ سامراج کا بنیادی معاشی کردار اجادارانہ سرمایہ داری، طفیل خود یا سڑی ہوئی سرمایہ داری، مرتی ہوئی سرمایہ داری اور آزاد مقابلے کی جگہ اجاداری کا لینا سامراج کا بنیادی نچوڑ ہیں۔ یہ بات ضرور ثابت ہو جاتی ہے کہ یہ نوآبادیاں بربادی اور قتل و غارت کے ذریعے جیتی گئی ہیں، کہ نوآبادیوں میں باشندوں کے ساتھ درندگی کا برتاؤ کرتے رہتے ہیں اور ان کا ہزار طورطریقوں سے دھوکا مختلف قوم کے حاکموں کی فرمانبرداری کے ذریعے کیا جارہا ہے۔ در حقیقت سامراج سرمایہ داری کی اجارہ دارانہ منزل ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ایک طرف سرمایہ مٹھی بھر بڑے بڑے اجاراداری بینکوں کا سرمایہ ہے اور دوسری طرف دنیا کا بٹوارہ ہے یعنی نوآبادیاتی پالیسی سے گزر کر دوسری نوآبادیاتی پالیسی کی منزل میں قدم رکھنے کا عبوری دور ہے ، جو بلا کسی مزاحمت اور روک ٹوک کے ان علاقوں پر عمل دخل پیدا کرتی ہے جن پر کسی سرمایہ دارانہ طاقت نے پہلے قبضہ نہیں کر رکھا تھا۔
سامراج بلاشبہ سرمایہ داری کے ارتقاء کا ایک خاص دور ہے اور سرمائے کی برآمد جو سامراجی کی سب سے زیادہ اہم اور اساسی معاشی بنیادوں میں سے ایک ہے ، جو سمندر پار کے کئی ملکوں اور نوآبادیوں کی محنت کے استحصال پر گزر بسر کرکے مفت خوری کی مہر ثبت کردیتی ہے۔ موجودہ سامراج ابتدائی شکل سے ترقی کرکے ایک غالب نظام بن چکا ہے جس کی وجہ سے اس وقت ایسے معاشی اور سیاسی حالات موجود ہیں جو موقع پرستی اور مزدور تحریک کے عام اور بنیادی مفاد کے درمیاں تضاد میں اضافہ کئے ہوئے ہیں ۔ کئی ملکوں میں موقع پرستی پختہ ہوکر گل سڑ چکی ہے اور اب وہ سوشل شاونزم کی شکل میں بورژوا پالیسی میں پوری طرح ضم ہو چکی ہے۔ موقع پرست لوگ پیٹی بورژوا اور مزدور طبقے کے کچھ پرتوں کے ایک ایسے حصے کی معروضی طور پر نمائندگی کرتے ہیں جو سامراجیوں کے نفع بالائے نفع کے ذریعے خرید کیا گیاہے اور سرمایہ داری کے پہرے داروں اور مزدور تحریک کو خراب کرنے والوں میں بدل دیا گیا ہے۔ سامراج کی خصوصیت کچھ مختلف ہے جو بیسویں صدی سے پہلے نہ تھی، یعنی اب یہ اتنا طاقتور بن چکا ہے ان کو “ماہا سامراج” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بین الاقوامی سرمایہ داروں کے درمیان معاشی تقسیم ہو چکی ہے ۔ سیاسی معاشیات اور اعداد و شمار کی موجودہ معلومات کی وجہ سے مزید کہنے کی گنجائش نہیں ہے اور اس طرح کی تقسیم بہت اہم لیکن وہ ابھی شروع ہوہی ہے۔ یہ مالیاتی سرمایہ کا دور ہے ، یہ سامراج کا دور ہے ، اور یہ سرمایہ دار ریاستوں کے درمیان بے نظیر سخت جدوجہد کا دور ہے۔
اس کتاب میں مصنف مزید لکھتا کہ جب فرانسیسی انقلابیوں نے پہلی بار ایسے انقلابی جنگ دشمن چھیڑ دی جس کی مثال صدیوں تک نہیں ملی، انیسویں صدی کے آخر میں انہوں نے اپنی حکمت عملی کے سارے نظام کی پھر سے تشکیل کی، پرانی فوج کی جگہ نئی انقلابی عوامی فوج بنا ئی اور جنگ کے نئے طریقے نکالے گئے۔ برطانیہ، فرانس، امریکہ اور جرمنی جن کی ساری پالیسی دسویں برسوں کے دوران متواتر معاشی رقابت رہی ہے تاکہ ساری دنیا پر راج کیا جائے، مظلوم عوام اور چھوٹی قوموں کا گلا گھونٹ جائے، اور سرمایہ دارانہ نظام بر قرار رکھیں۔ سرمایہ دارانہ نظام نے ساری دنیا کو اپنے زنجیروں میں لپیٹ لیا ہے۔ آج وہی سرمایہ دارانہ نظام ایک نئے شکل میں ابھر کر سامنے پیش ہوا ہے اس کو آپ ultra imperialism or super ultra imperialism سے جانا جاتا ہے ۔
روس، برطانیہ اور جرمنی کی ساری تاریخ جبراً الحاق کے لیے مسلسل ، وحشیا نہ اور خون آشام جنگ ہے۔ یہ عظیم طاقتیں ہمارے سامنے موجود ہیں جو ان قوموں کے خلاف ایسی جنگیں لڑی گئیں جہاں وہ مظلوم قوموں کو مشین گنوں اور توپوں کا نشانہ بنا گیا۔ جنگ سے پیدا ہونے والا انقلاب ان سخت مشکلات اور صنعتوں سے نہیں بچ سکتا جو اس کو قوموں کے طویل، تباہ کن رجعت پرستانہ قتل و غارت سے وراثت میں ملی ہیں ۔جنگ کے پیدا کئے ہوئے ملبے اور کھنڈروں کے درمیان انقلاب کی تعمیر کریں اور نہ ان لوگوں سے جن کے ساتھ جنگ نے وحشیانہ برتاؤ کیا۔ اس بات میں کوہی شک نہیں کہ کوہی بھی انقلاب تب تک کامیاب نہیں ہوسکتی ہے جب تک وہ مظلوم عوام اور محکوم قوموں کے استحصال کرنے والوں کی مزاحمت کو نہ کچل دے ۔جب آپ مزدور، محنت کش طبقوں اور مظلوم عوام نے ریاستی اقتدار پر قبضہ کیا تو استحصال کرنے والوں کو کچل دینا آپ کا فرض ہے ۔
لینن سوشلزم کے بارے میں بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہر سچا سوشلسٹ بورژوازی پر فتح حاصل کرنے کے لیے، مزدوروں کے ہاتھ میں اقتدار منتقل کرنے کے لیے، عالمی پرولتاریہ انقلاب شروع کرنے کے لئے وہ انتہاہی سنگین قربانیوں سے نہ جھکنا چاہیے ہے کیونکہ جن میں علاقے کے ایک حصے کی قربانی، سامراج کے ہاتھوں بھاری شکستوں کی قربانی بھی شامل ہے۔ بین الاقوامی سوشلسٹ تحریک کے جو بدمعاش اور بورژوا اخلاق کے جو پھٹواس طرح سوچتے ہیں کہ، وہ ہزار بار قابل لعنت ہیں۔
اس کتاب میں لینن بہت خوبصورتی سے اپنے نظریے اور سامراج کے بارے میں وضاحت کرتا ہے جو شاید کسی دوسروں کتاب میں نہیں لکھی گئی ہو۔ سیاسی کارکنوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس کتاب کو پڑھیں اور پھر سمجھیں کہ سامراج آجکل ایسے انتہا پسند لوگ کے زریعے اپنے مفادات طے کر رہا ہے تاکہ وہ کل کی روشن خیالوں کے سامنے رکاوٹ بن سکتے ہیں۔
یہ بات بالکل حقیقت ہے کہ ہ اردگرد کچھ ایسے لوگ ہیں( سردار، نواب، اور غیر سیاسی کارکن ) وہ ہمیشہ قوم کو مستقبل کی کہانیاں سنانے میں مصروف ہیں لیکن حقیقت میں وہ سوشل شونسٹ ہیں جو سامراجیوں کے نفع بالائے نفع بخش کاروبار کرنے والے لوگ ہیں۔ اس بات کو وضع سے کہنا چاہتا ہوں کہ سوشل شاونسٹ میں حق وباطل کی تمیز کرنے کی یاکہ سامراج کو فتح کرنے کی صلاحیت ختم ہوگئے ہیں طرح طرح کی خودساختہ کہانیاں گھڑ کر اپنے طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ ان لوگوں نے دنیا کو فتح کرلیا۔اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں اسطرح کی بے خودساختہ کہانیوں پر نٸی نسل کبھی یقین نہیں کرتی۔ غیر سیاسی ، روایتی ہیروز ، خود کو ترم خان سمجھنے والوں اور بورژوازی کے ذہن رکھنے والوں کو نٸی نسل کے شعوری لیول کا ادراک کرنے کی اہلیت کے متعلق کچھ بھی معلوم نہیں۔
سامراجی کی گود سے جنم لینے والے سوشل شاونسٹ اور بورژوازی نے پورے خطے کہیں فریقوں کے ذریعے لوگوں کو مختلف ذات پات کے نظام سے تقسیم کیا ہے یہ لعنت پوری خطے میں موجود ہے سامراج کو بر قرار رکھنے کے لیے پورژوازی نظام نےکچھ عجیب و غریب قسم کے قوموں کے درمیان میں نظریے پیدا کیے ہیں جیسے گوری نسل اور کالی نسل، نام نہاد مہذب قومیں اور غیر مہذب قومیں۔لٹیری ترقی یافتہ قومیں اور لٹی پھٹی ترقی پذیر قومیں۔ ان غیر سیاسی نظریوں نے سامراج کو مزید طاقتور بنانے میں مدد دی ہیں۔ جیسے اس کتاب )سامراج، سامراجی( میں خود یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جب سامراج اپنی انتہا میں آتی ہے تو وہ مظلوم عوام اور قوموں کو استحصال کرنے کے لیے تقسیم کرنا شروع کرتی ہے جیسکہ آج کا سامراج ہے جو تقسیم کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے نوآبادیات اور سرمایہ دارانہ نظام کومزید طاقت ور بنا نے میں معروف ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں