بیٹے کو منظرے عام لانے کی بجائے خاندان کے مزید افراد کو لاپتہ کیا جارہا ہے- والدہ راشد حسین

420

جبری طور پر لاپتہ انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین بلوچ کے لواحقین کی کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس، گذشتہ رات فورسز کی جانب سے گھروں پر چھاپہ اور راشد حسین کے بہنوئی کی جبری گمشدگی کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ –

پریس کانفرنس سے گفتگو کرتے ہوئے راشد حسین کی والدہ کا کہنا تھا کہ میرے بیٹے راشد حسين کو 26 دسمبر 2018 کو متحدہ عرب امارات سے جبری طور پر لاپتہ کرکے ایک سال بعد غیر قانونی طور پر پاکستانی اداروں کے حوالے کیا گیا جو تاحال لاپتہ ہیں ہم نے راشد حسين کی بازیابی کیلئے احتجاج کے تمام تر طریقہ کار اور عدالتی نظام کو آزمایا لیکن بجائے اس کے کہ راشد کو بازیاب کیا جائے ریاستی اداروں کے اہلکار رات کے اندھیرے میں ہمارے گھروں میں گھس کر ہمارے خاندان کے دیگر افراد کو جبری اٹھا کر غائب کر رہے ہیں اور ہمیں زدکوب کیا جا رہا ہے۔

راشد حسین کی والدہ کے مطابق کل رات دو اور تین بجے کے درمیان متعدد گاڑیوں میں سوار رینجرز اور سیول ڈریس میں ملبوس مسلح لوگ جن میں کچھ سادہ وردی والے نقاب پوش بھی شامل تھے ہمارے گھر واقع نیول کالونی میں چھاپہ مارا، گھر والوں کو زدکوب کرنے کے بعد راشد کے والد اور اس کے بھتیجے شاہ میر جو کلاس نہم کا طالب علم ہے کو تشدد کرکے اپنے ساتھ لے گئے، جن کو بعد ازاں شدید تشدد کے بعد صبح چھوڑ دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اسی دوران راشد کے بہن کے گھر بھی فورسز نے چھاپہ مارا وہاں راشد کی بہن اور گھر والوں پر تشدد کی اور گھر والوں کے موبائل بھی چھین کر لے گئے جبکہ راشد کے بہنوئی علی جان ولد تاج محمد کو اٹھا کر لے گئے جو تاحال انکے تحویل میں ہے-

راشد کی والدہ کے مطابق علی جان انسداد پولیو ٹیم سے منسلک رہے ہیں ایک سوشل ورکر ہیں اور ساتھ ساتھ سی ایس ایس کے امتحان کی بھی تیاری کر رہے ہیں فورسز نے رات کے اندھیرے میں آ کر چادر و چار دیواری کی پامالی کی، نہ چھوٹے بچوں کا خیال رکھا گیا نا عورتوں کا، آخر ہم نے ایسا کونسا جرم کیا ہے جو ہمارے ساتھ ایسا غیر انسانی اور غیر مہذبانہ سلوک روا رکھا جا رہا ہے؟

انکا کہنا تھا کہ ہم اپنی فریاد لے کر آج یہاں کراچی پریس کلب آئے ہیں ہماری آواز ان اداروں تک پہنچانے میں ہماری مدد کریں ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا اس ملک کے شہری ہونے کے ناطے ہمیں جینے کا بھی حق نہیں ہے؟ کیا اپنے بیٹے کی بازیابی اور انکی رہائی کیلئے آواز اٹھانا بھی جرم ہے؟ خدارا ہمیں اس شدید ذہنی کیفیت سے نکالیں ہم کل رات سے شدید ذہنی اذیت کا شکار ہیں ہمیں کس جرم میں یہ سزا دیئے جا رہے ہیں کہ ہمارے گھر کے بزرگوں اور بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے عورتوں کی تذلیل کی جاتی ہے اور ہمارے بہنوئی علی جان کو کس جرم میں جبری لاپتہ کیا گیا؟

انہوں نے کہا اگر اس نے کوئی جرم کیا تھا تو قانونی راستہ اپنائے جاتے لیکن کسی کو رات کے اندھیرے میں اس طرح اٹھا کر غائب کرنا غیر قانونی عمل ہے۔

راشد حسین کی والدہ کے مطابق محاصرہ کے دوران ریاستی اہلکاروں نے راشد کے کمسن بھتیجے و بوڑھے والد کو شدید تشدد کا نشانا بنایا اور ہمیں کہا گیا کہ راشد حسین کے بارے احتجاج و دیگر سرگرمیاں ترک کردیں دیگر ہم آپ کے خاندان کے مزید افراد کو نقصان پہنچائینگے۔

پریس کانفرنس کے دوران راشد حسین کے لواحقین کے ہمراہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کے رہنماؤں اور ایچ آر سی پی کے اسد بٹ بھی بھی موجود تھے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے آرگنائزر آمنہ بلوچ کے مطابق بلوچ یکجہتی کمیٹی اس ظلم کے خلاف راشد حسین کے لواحقین کے ساتھ ہیں۔

میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایچ آر سی پی کے اسد بٹ کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ سنگین ہے، بجائے اسکے کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل ہو ریاستی ادارے لاپتہ افراد کے لواحقین کو تشدد کرکے ان کو اپنے آئینی حق احتجاج سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے بھیانک نتائج ہونگے۔

ہیومین رائٹس کونسل آف بلوچستان نے اپنے جاری ایک بیان میں کہا کہ ہم نیول کالونی کراچی میں راشد حسین کے گھر پر ریاستی اہلکاروں کے چھاپے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ فورسز نے راشد حسین کے خاندان کے افراد کو ہراساں کیا اور اس کے بہنوئی کو اغواء کیا۔ راشد خود 2 سال سے زیادہ عرصے سے لاپتہ ہے۔

انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ مغویوں کو جلد از جلد رہا کیا جائے یا عدالت کے سامنے پیش کیا جائے۔