بغل بچے – اشرف بلوچ

373

بغل بچے

تحریر: اشرف بلوچ
سینئر وائس چیئرمین بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن

دی بلوچستان پوسٹ

انسانی تاریخ میں اس بات کی گواہی کوئی نہیں دیتا کہ کسی قوم یا کسی شخص نے کسی اور قوم یا شخصیت کی انحصار میں اپنے مقاصد کے حصول میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ہاں البتہ کچھ مفاد پرست گروہ یا شخصیات نے اجتماعی کارڈ کھیل کر انفرادی مراعات و معاوضہ لینے میں ضرور کامیاب ہوئے ہیں اور جو ثانوی گروہ بغیر کسی اپیل و گذارش کے خود سے آپ کو کسی بھی طرح کے مراعات دینے کی(استعمال کرنے کی) پیشکش کرے، اسے ہر ذی شعور انسان سمجھ جائے گا کہ اس سے کچھ غلط مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

بدقسمتی سے بلوچ تاریخ میں ہمیں اس طرح کے ناعاقبت اندیش کردار بھی نظر آتے ہیں جنہوں نے اپنے گروہی مفادات کے لیے شرمساری کی مثالیں قائم کیں۔ چادر و چاردیواری کے تقدس کی پامالی سے لیکر عورتوں کی عصمت دری تک وہ طاقتورقوتوں کے لیے بطور سہولت کار کام آئے اور جب کسی عام بلوچ کی جانب سے کوئی سوال اٹھتا تو اس کے جواب میں یا تو اس کا جواز پیش کرتے تھے یا منطق نہ ہونے کی وجہ سے سوال کرنے والے کو اسکے اپنے منطقی انجام تک پہنچاتے تھے۔ شہید فدا بلوچ کی شہادت بطور ایک ثبوت ایک واضح مثال ہے۔
اس وقت بھی وہ کردار مختلف روپ میں بلوچ سرزمین کی سودا بازی میں ہر طرح کے وسائل کو بروئے کار لانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ کچھ کردار آقاوں کی آشیرباد حاصل کرنے کیلئے براہ راست و اعلانیہ انہیں سہولت فراہم کر رہے ہیں اور کچھ قوم پرست و سوشلسٹ کا روپ دھار کر بلوچ قوم کیلئے زمین کو تنگ کرنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں۔

بلوچ قوم کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لیے آج بھی استحصالی قوتیں خود سمیت اپنی آلہ کاروں کے ساتھ اپنے مشن پر عمل پیرا ہیں۔ ان آلہ کار کرداروں میں سے ایک کردار نیشنل پارٹی بھی ہے جو دو ہزار تیرہ کے فرضی انتخابات سے پہلے اس کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور غلام محمد بلوچ کے بیانات میں کچھ نکات کا فرق ہوا کرتا تھا اور جب ڈاکٹر صاحب اقتدار کی کنٹرولڈ کرسی پر براجمان ہوئے تو اپنے آقاوں کو خوش کرنے کیلئے انھوں نے ڈیرہ بگٹی، کوہلو، بارکھان، آواران سمیت بلوچستان کے دیگر علاقوں میں وزیرستان کے طرز کی فوجی آپریشن کرنے تجویز دینے و مطالبہ کرتے نظر آئے۔ یہ وہ دور تھا کہ کتاب دہشتگرد کہلائے گئے اور ڈاکٹر صاحب کے اپنے حلقے میں کتابوں پر چھاپے پڑگئے اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں والدین نے اپنے بچوں کی درسی کتابیں زمین میں دفنا دئے تاکہ ان کے بچوں پر کوئی دہشتگردی کی فائل نہ بن جائے۔ ان کا نظریہ اس وقت واضح ہوا جب وہ کرسی پر براجمان تھے تو سی پیک ایک گیم چینجر کہلاتا تھا اور جب کرسی چھینی گئی یہ گیم چینجر سے ایسٹ انڈیا کمپنی بن گئی اور بالآخر گراونڈ سے آوٹ ہونے کے بعد اقتدار کیلئے براہ راست ڈیتھ اسکواڈ کے ساتھ انتخابی اتحاد بنالی۔

اب ایک دفعہ پھر وہ اپنی قیمت لگانے مئی دو ہزار تیرہ سے پہلے کا روپ دھارے اپنی بولی لگانے کے ساتھ ساتھ اپنی پاکٹ آرگنائزیشن و دیگر آلہ کاروں کے ذریعے بلوچ طلباء و عوام کو زدوکوب کرنے لگے ہیں۔ لیکن انہیں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ بلوچ سادہ لوح ضرور ہیں لیکن مکروہ کردار و اعمال کو سمجھنے کا سکت رکھتا ہے۔ ان پڑھ ہوکر بھی ہمارے بزرگ اپنے بچوں کو کہانی کی شکل میں تاریخ سے آشنا کردیتے ہیں اور یہ لوح و قلم کا سفر ہمیشہ جاری رہے گا اور قوم دوست و قوم دشمن کردار بلوچ قوم کے دل و دماغ میں پتھر کے لکیر کی طرح نقش ہیں۔ خوف کو طاری کرنے و بلوچ نوجوانوں سے قلم و کتاب چھیننے کا عمل آج کا نہیں بلکہ دہائیوں سے ہوتا آرہا ہے لیکن اب انھوں نے فیصلہ کرلیا ہے وہ کسی بھی طرح جہالت کو خود پر مسلط نہیں ہونے دیں گے۔
بقول فیض احمد فیض
ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
اسباب غم عشق بہم کرتے رہیں گے
ویرانی دوراں پہ کرم کرتے رہیں گے
ہاں تلخی ایام ابھی اور بڑھے گی
ہاں اہل ستم مشق ستم کرتے رہیں گے
منظور یہ تلخی یہستم ہمکوگوارا
دم ہے تو مداوائے الم کرتے رہیں گے
مے خانہ سلامت ہے تو ہم سرخئ مے سے
تزئین در و بام حرم کرتے رہیں گے
باقی ہے لہو دل میں تو ہر اشک سے پیدا
رنگ لب و رخسار صنم کرتے رہیں گے
اک طرز تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک
اک عرض تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں