بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کی جانب سے افغانستان کی موجودہ صورتحال، خطے میں تبدیلیوں بلوچ تحریک کے حوالے ایک پمفلٹ جاری کیا گیا ہے۔
پمفلٹ میں کہا گیا ہے کہ انقلابی جدوجہد ہمیشہ پرکھٹن اور مشکل حالات میں ہوتا ہے۔ دنیا کی کوئی بھی ایسی تحریک دیکھنے کو نہیں ملتی کہ جنہوں نے قومی آزادی جیسی منزل سخت مصائب اور مشکلات کے بغیر حاصل کی ہے۔ انقلابی جدوجہد میں قربانی، حوصلہ اور باشعور فیصلے ہی تحریکوں کو کامیابی سے ہمکنار کرسکتے ہیں۔ افغانستان میں پیدا ہونے والے حالات اور طالبان کی ایک مرتبہ پھر افغانستان میں اقتدار میں آنے کی قیاس آرائیوں کے درمیان بلوچ قومی تحریک کے حوالے سے جو سطحی اور عقل سے عاری تجزیے کیے جارہے ہیں وہ لمہ فکریہ ہے۔ یہ ایک سطحی تجزیہ اور ناپختہ سوچ کے سوا کچھ بھی نہیں کہ افغانستان میں اقتدار کی تبدیلی سے بلوچ قومی تحریک کسی سنگین بحران سے دوچار ہوگا۔ بلوچ قومی تحریک آزادی کا آغاز بلوچ قوم نے افغانستان سمیت کسی بھی ہمسایہ ممالک کے سپورٹ یا امداد سے نہیں بلکہ اپنے بل بوتے اور مکمل طور پر شعوری بنیاد پر کیا تھا۔ جبکہ بلوچ قومی تحریک آزادی کے روٹس کسی باہر ممالک یا کسی بیرونی طاقت کے ہاتھ میں نہیں بلکہ بلوچ عوام کے اندر موجود ہیں۔ موجودہ بلوچ قومی تحریک کا عملی آغاز خیر بخش مری کی افغانستان موجودگی میں نہیں بلکہ واپس بلوچستان کے زمین پر آنے کے بعد ہی شروع ہوا تھا جو آج بھی مختلف کمزوری و کوتاہیوں اور کامیابی و ناکامیوں کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ بلوچ نوجوانوں کو ایک بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قومی تحریکیں کسی دوسرے ملک یا قوم کے مدد کرنے سے کامیاب یا ناکام نہیں ہوتے ہیں بلکہ قومی جدوجہد کی کامیابی کا ناکامی کا تعلق محکوم قوم کی اپنی قربانی کا جذبہ، حوصلہ اور شعور سے ہوتا ہے۔ بلوچستان میں قومی تحریک ہمیشہ عوامی طاقت اور عوامی سپورٹ سے منظم ہوئی ہے۔ موجودہ جدوجہد کا تعلق بھی براہ راست بلوچ عوام سے جڑا ہے جو اس وقت قومی فکر اور سوچ کے ساتھ تحریک سے جڑے جہدکاروں کیلئے ہمدردیاں اور نیک تمنائیں رکھتی ہیں۔ گوکہ کسی بھی خطے کے حالات اپنے ہمسایہ ممالک یا قوم کے حالات پر اثر ڈالتے ہیں مگر ان اثرات کا تعلق اس بات پر انحصار کرتا ہے کہ اس قومی تحریک یا قوم کی اندورنی مضبوطی کتنی ہے۔ تحریکوں پر خطے کے حالات منفی اثرات اس وقت ڈالتے ہیں جب تحریکیں غیر منظم اور اندرونی طور پر کمزور ہوں جبکہ منظم تحریکیں بدلتے حالات میں اپنے لیے مزید مواقع پیدا کر لیتے ہیں۔
مزید کہا گیا ہے کہ ہم دیکھیں کہ اگر دوسرے ملکوں کی امداد یا کمک سے کوئی ملک آزاد ہوجاتا تو آج کشمیر، فارس موومنٹ، تامل، کرد، فلسطین، کیتالونیا سمیت دیگر ممالک آج آزاد اور خودمختیار ہوجاتے کیونکہ آزادی اور جدوجہد کا تعلق خالص عوام کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ جبکہ بیرونی طاقتوں کے صرف اپنے وقتی مفادات ہوتے ہیں۔ اگر کسی قومی تحریک کا دارومدار صرف کسی دوسرے ممالک کے حالات کے ساتھ جڑے ہوئے ہوں تو اس تحریک کو صاف الفاظ میں ایک کمزور تحریک ہی گردانا جاسکتا ہے۔ بلوچ قومی جدوجہد کی کامیابی یہ ہے کہ عوام آج ریاست کی بدترین جبر و قہر کے باجود انتہائی مظبوطی کے ساتھ اپنے قومی آزادی کے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور ریاست کی جبر بلوچ عوام کو خوف زدہ کرنے کے بجائے اس کی شعور میں مزید اضافہ کی سبب بن رہا ہے۔ آج بلوچ عوام قومی تحریک آزادی کو اپنے قومی مسائل کا واحد حل سمجھتی ہے جو تحریک کی مزید منظم ہونے کی نشانی ہے ۔ بلوچ قومی تحریک کے حوالے سے موجودہ چہ مگوئیاں یقیناً سطحی اور سیاسی بالیدگی کے فقدان کو ظاہر کرتے ہیں۔ بلوچ تحریک کو کسی دوسرے ملک کے حالات کے ساتھ جوڑنے کے بجائے عوامی شعور و فکر سے جوڑا جائے کیونکہ بلوچ قومی تحریک کو منزل مقصود تک پہنچانا عام بلوچ عوام نے اپنے ذمہ پہ اُٹھائی ہے۔ بلوچ عوام کے اندر موجود قومی شعور ہی دشمن کو نفسیاتی طور پر مفلوج اور اس کے قبضہ کے خاتمے کا سبب بنے گا۔
پمفلٹ میں بلوچ نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ قومی تحریک کی وابستگی بلوچستان کی ہر گھر و گدان سے ہے۔ بلوچ مائیں اپنے بچوں کو بلوچ سرزمین کی دفاع کے لیے قربان ہونے کا درس دے رہے ہیں ۔ بلوچوں کی موجودہ نسل کی تربیت اسی قومی تحریک کی سائے تلے ہوئی ہے۔ موجودہ قومی تحریک میں شائد ہزاروں کمزوریاں موجود ہوں لیکن ہمسایہ ملک میں حالات کی تبدیلی کو جواز بناکر کچھ نابالغ یہ دکھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ بلوچ قومی تحریک ایک مرتبہ پھر اپنے ماضی کی طرف جائے گا جو دشمن کی پروپیگنڈا اور کچھ ناپختہ سیاسی کارکنان کی ذہنی پستگی کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ بلوچ قوم کو اس بات کا ادارک کرنے کی ضرورت ہے کہ بلوچ قومی تحریک کی کامیابی اور اس کی مزید منظم ہونے کا تعلق صرف عوام کے شعور و فکر سے جڑا ہے ۔ بلوچ نوجوانوں کو اپنے صفحوں کو مزید منظم کرکے آنے والے مشکلات کیلئے فکری طور پر اپنے آپ کو تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ تحریک کو مستقبل میں منظم کرنا اور کامیابی سے ہمکنار کرنا انہی کے کندھوں پر ہے ۔ جدوجہد میں سخت اور مشکل حالات آتے ہیں۔ ہمیں یہ نہیں بولنا چاہیے کہ 2009 سے شروع ہونے والے بدترین ریاستی کریک ڈاؤن جیسے حربے بھی بلوچ قومی جدوجہد ختم یا کمزور کرنے میں ناکام رہے جبکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں شدت اور پختگی آتی رہی ۔آنے والے سخت حالات شاید ہمیں مستقبل کے حوالے سے مزید متحریک رکھنے میں فائدہ دے سکیں، قومی تحریکوں میں سخت حالات تنظیموں اور پارٹیوں کو اپنی غلطیوں سے سیکھنے کا راستہ دیتے ہیں ۔ موجودہ بدلتے حالات بلوچ جہدکاروں کو مستقبل میں خطے اور عالمی سیاست کے داؤ پیچ کو سمجھنے اور جدوجہد کو جاری رکھنے کا سبب بنیں گے۔
آخر میں کہا گیا ہے کہ بلوچ جہدکاروں کی عظیم فکر و جدوجہد ہر بلوچ کو یہ یقین دلاتی ہے کہ فتح ہر صورت میں ہماری ہوگی۔