بلوچستان میں ہر ایک خاندان سے کوئی نہ کوئی لاپتہ ہے جو ریاست کے بنائے ہوئے اذیت خانوں میں ہیں۔
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4339 دن مکمل ہوگئے ۔لیکن اب تک مسنگ پرسنز منظر عام پر نہ لائے گئے نہ انکے بارے میں کچھ پتہ چلا ہے۔
لاپتہ افراد کے لواحقین جب فروری 2021 کو اسلام آباد میں دھرنا دے رہے تھے کہ ہمارے پیاروں کو بازیاب کیا جائے یا کوئی جُرم کی ہے تو انہیں منظر عام پر لایا جائے اور قانون کے تحت سزا دی جائے عدالتوں میں پیش کیا جائے انہیں اسطرح لاپتہ نہ کیا جائے اور انکی مسخ شدہ لاشیں ہمیں تحفے میں نہ دیا جائے ۔ہمارے ریاست مدینہ کے وزیراعظم نے شیرین مزاری کے زریعے یقین دہانی کی تھی اب لاپتہ افراد کا مسئلہ حل ہوگا اور سارے مسنگ پرسنز کو منظر عام پر لایا جائیگا جو بے گناہ ہیں انہیں رہا کیا جائیگا لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا صرف جھوٹے وعدے کرکے دھرنا ختم کروا دیا گیا تھا۔
مسنگ پرسن کہنے کیلے صرف ایک لفظ ہے اگر اس لفظ کی گہرائی دیکھا جاۓ اور درد کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو یہ لفظ خود میں ایک بہت بڑی کہانی ہے۔
لاپتہ ایک شخص کو کیا جاتا ہے لیکن اُس ایک شخص سے ایک ہزار رشتے جُڑے ہوتے ہیں مثلاً لاپتہ فرد کسی کا بھائی ہے کسی کا بیٹا ہے کسی کا شوہر ہے کسی کا دوست ہے کسی کا ہونے والا جیون ساتھی کسی کے بوڑھاپے کا سہارا ہے۔اُس ایک شخص کے لاپتہ ہونے کہ ساتھ بہت سے رشتے لاپتہ ہو جاتے ہیں انکی زندگی کی خوشیاں لاپتہ ہوجاتی ہیں کسی کی جینے کی وجہ لاپتہ ہو جاتی ہے کوئی ہنسنا اور مسکرانا بھول جاتا ہے شاہد کوئی بات کرنا بھول جاتا ہے۔
کسی ایسے شخص کا انتظار کرنا جس کے آنے کی کوئی آس نہیں ہوتی وہ لمحہ کسی اذیت سے کم نہیں ہوتی۔
لاپتہ افراد کہاں ہیں؟ کیسے ہیں؟ کسی کو بھی پتہ نہیں ہے کیسے جی رہے ہیں یا کیسے اپنے لئے موت کی دعا کر رہے ہیں، کچھ بھی پتہ نہیں ہے یہ سب چیزیں گمنام ہیں، کوئی کچھ بھی نہیں جانتا۔
اگر دیکھا جائے یہ جبری گمشدگی ابھی کا واقعہ نہیں یہ تو بہت سالوں سے چلی آ رہی ہیں، کچھ لوگ تو بیس یا پچیس سالوں سے لاپتہ ہیں، جن کی کوئی بھی خبر نہیں ہے کہ وہ کہاں ہیں، زندہ ہیں کہ نہیں ؟ یہ لمحے تکلیف دہ ہوتی ہیں کسی اپنے کاانتظار کرنا اور پتہ وہ انکا آنا بہت ہی مشکل ہے۔ لاپتہ کرنا ایک غیر انسانی حرکت یہ انسانیت کے خلاف بغاوت ہے کسی کو لاپتہ کرنا اذیت دینا یہ سب غیر انسانی عمل ہے۔
ذاکر مجید کی بوڑھی ماں بارہ سالوں سے انتظار کر رہی کہ کب اسکا بیٹا لوٹ کر آئیگا اور زاکر جان کو گلے لگا کر اپنے ساری درد اور تکلیف کو بھول جائیگے ایک ماں کیلے اسکے بیٹے سے جُدا ہونا کسی ازیت سے کم نہیں ہے لیکن بد قسمتی سے بلوچستان میں ہر خاندان اسی ازیت میں مبتلا ہے۔
لاپتہ افراد کے لواحقین ہر روز مر مر کے جی رہے ہیں انکی زندگی جہنم سے بھی بدتر ہوگئی ہے کیونکہ اپنوں کی جُدائی کسی قیامت سے کم نہیں اگر ہم فرض کرلیں ہم کسی سے محبت کرتے ہیں اور اسکے آنے کا انتظار کر رہے ہیں تو جب وہ آنے میں تھوڑی دیر کر دے ہمیں بے چینی سے محسوس ہوتی ہے، ڈر لگنے لگتا ہے لیکن لاپتہ افراد کے لواحقین کو کچھ بھی پتہ نہیں کہ انکے پیارے کہاں ہیں کیسے ہیں اور کب آئینگے ؟وہ ہر صبح اس اُمید کے ساتھ اُٹھتے ہیں کہ آج اچھی خبر مل جائیگی ہمارے گھر کی خوشیاں لوٹ آئینگی لیکن بد قسمتی سے انتظار بڑھتا جاتا ہے لیکن ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔تاریکی راتوں میں لاپتہ افراد کے لواحقین یہ سوچتے ہیں کہ جس طرح اللہ پاک اندھیری رات کو روشن دن میں بدل دیتا ہے اسی طرح ایک دن ہمارے غم اور پریشانیوں کو خوشیوں میں بدل دیگا بس یہی آس لگا کر اپنوں کے لوٹ آنے کا راستہ دیکھ رہیں ہیں کہ شاید ہمیں خوشخبری مل جائے۔
کبھی کبھار یہ انتظار لاشوں کے تحفوں کے ساتھ ختم ہوجاتی ہے جو جھوٹے مقابلے میں شھید کئے جاتے ہیں۔
کسی ماں بہن بھائی بیوی محبوبہ بچوں کیلے انتظار کے دن قیامت سے کم نہیں ہوتے وہ ہر ایک سیکنڈ، منٹ کو اذیتوں کے ساتھ گزار رہے ہوتے ہیں۔
ہم ریاست مدینہ کے وزیر اعظم عمران خان سے درخواست کرتے ہیں جو وعدہ کیا تھا اب پورا کر دو، سب کی انتظاروں کو خوشیوں میں بدل دو بلوچ مائیں اور بہنیں آپکو نیک دعائیں دینگے۔
اللہ کرے سب کے انتظار خوشیوں میں بدل جائیں، سب کے پیارے بازیاب ہوکر سلامتی سے اپنے گھر پہنچ جائیں، اللہ کرے اب کسی ماں کا گود خالی نہ ہو کسی بہن کا محافظ لاپتہ نہ ہو اللہ کرے اب بلوچستان کی خوشیاں لوٹ آئیں اور غم اور پریشانی کہ دن ختم ہوجائیں سارے لاپتہ بازیاب ہو کر آجائیں اللہ کرے ان ظالموں کے دل میں رحم آجائے کسی کے پیارے کو اب گمشدہ نا کریں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں