ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان بلوچستان چیپٹر کے چیئرمین حبیب طاہر ایڈوکیٹ نے بدھ کے روز کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، جبری گمشدگیوں کا زکر کرتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنایا جائے –
انہوں نے کہا گذشتہ سال حیات بلوچ، کریمہ بلوچ اور صحافی شاہینہ شاہین قتل ہوئے جو قابل مذمت ہیں-
انہوں نے کہا کہ گزشتہ اور رواں سال بلوچستان میں 5 سے 6 سال تک جبری لاپتہ رہنے والے افراد بازیاب ہوئے جو خوش آئند عمل ہے –
انہوں کہا کہ ہم اپیل کرتے ہیں کہ تمام جبری لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے اگر انھوں نے کوئی جرم کیا ہے تو ان کے خلاف ایف آئی ار درج کرکے منظرعام پر لایاجائے۔
ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان کے رہنماؤں نے اپنے پریس کانفرنس میں کہا کہ کورونا وائرس کے پیش نظر 36000 ہزار ورکرز بے روزگار ہوئے۔
جبکہ اغواء کاری کے زیادہ واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
دوران کام ہلاک مزدوروں میں بلوچستان سرےفہرست ہےجبکہ کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی ہلاکتوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان حکومت بلدیاتی انتخابات کرانے میں ناکام رہی، اور
بے گھر افراد کے لیے شلٹر ہاؤس پر قانون سازی کے باوجود عمل درآمد نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ 2020 میں بلوچستان سے اغواء کے 33 واقعات روپورٹ ہوئیں ہیں۔
گزشتہ سال میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنے والا بچے کی درخت سے لٹکتی لاش برآمد ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ 2020 میں بلوچستان کے علاقے تربت میں مسلح افراد نے گھر میں خاتون کو گولیاں مار کر ہلاک کیا۔
2020 میں بلوچستان 24 جبری لاپتہ افراد کے درخواستیں موصول ہوئیں۔
73 لاشیں برآمد ہونے کی رپورٹ موصول ہوئیں ہیں۔
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ لاپتہ افراد کی جو کیسز رپورٹ ہوتے ہیں تعداد اس سے زیادہ ہے اور لوگ خوف کی وجہ سے کیسز سامنے نہیں لاتے ہیں –