کہانی نمرہ پرکانی بلوچ کی – غلام رسول آزاد

883

کہانی نمرہ پرکانی بلوچ کی

تحریر: غلام رسول آزاد

دی بلوچستان پوسٹ

ہر سال کی طرح لوگ سردیوں میں کوئٹہ سے کراچی کا رخ کرتے ہیں۔ ان میں ہم بھی شامل ہیں کیونکہ شال کی سردی ناقابلِ برداشت ہوتی ہے اور ہر سال ہمیں شال کی برفباری بھی دیکھنا نصیب نہیں ہوتا۔ لیکن یہ خواہش ہر وقت رہا ہے۔شال ہو اور برفباری کا حسین نظارہ ہو۔

اس بار میں نے اور میری بہن نے ابو سے ضد کی کہ ہمیں برفباری دیکھنا ہے۔ برفباری دیکھنا ہر وقت میری خواہش رہی ہے ۔
شال میں برفباری ہوتے ہی ہم نے ارادہ کیا کہ اب چلیں گے۔ کوئٹہ سفید چادر کی لپیٹ میں منفرد انداز میں نمودار تھا۔

ہم بہت خوش تھے کہ کوئٹہ تا کراچی سفر میں بلوچستان کے قدرتی فن پارے خوبصورتی اور سفید چادروں میں لپیٹا دلکش پہاڑوں پر برف کا نظارہ دیکھیں گے۔

اٹھارہ جنوری دو ہزار بیس کو صبح ہم کراچی کے جانب نکلے۔
اور یہ میری زندگی کا ہولناک سفر تھا۔ میری فیملی میں سے میں، میری بہن، چھوٹا بھائی اور امی ابو ساتھ تھے۔ سفر جاری ہوا ہم آپس میں پسندیدہ گانوں پر لڑ رہے تھے۔ لطف اندوز ہوتے ہوئے بلوچستان کے خوبصورتی کو عکس بند کر رہے تھے۔ یہ سفر مجھے خود کے لیے سیاہ اور تاریک نظر آرہی تھی۔لسبیلہ کی سرحدوں پر ہمارے کار کو ایک خوفناک حادثہ پیش آیا۔

جب میری آنکھیں کھلیں تو میں ایمبولینس کے اسٹریچر پر تھی۔ دوسری طرف میرے ابو تھے۔ مجھے ایسے لگا جیسے میں کوئی خواب دیکھا رہا ہوں۔ میں بیہوش ہوگئی۔

کچھ دیر بعد پھر سے مجھے ہوش آیا آنکھیں کھلتے ہی میں دیکھ رہی تھی کہ مجھے ہاتھوں میں پکڑ کر ہاسپٹل لے جا رہے ہیں۔ اُس وقت مجھے ایسا لگا کہ میرے چہرے پر کوئی فیچرز نہیں ہے مطلب نہ ناک، ہونٹ سب کے سب ختم ہوگئے ہیں۔ اور بس میں ناک کے نالی سے سانس لے رہی ہوں۔

میری امی تھوڑے ہوش میں تھی۔ میری امی کے ہاتھوں میں فریکچر آیاتھا۔ اور مجھ سے کچھ فاصلے پر تھی جب مجھے دیکھا تو دوڑ کر میرے پاس آئی اور کہا نمرا کیا تم ٹھیک ہو؟ میں نے کہا امی میں ٹھیک ہوں اور میں پھر سے بیہوش ہوگئی۔

جب پھر سے مجھے ہوش آئی، میں اسپتال میں ایک بیڈ پر تھی۔ ہر طرف چیخ و پکار تھا۔ دوسری طرف ڈاکٹر بار بار آواز لگا رہا تھا انجکشن لیکر آہئں انجکشن لیکر آئیں۔

میرا چہرہ تو پہچان میں بھی نہیں آرہا تھا ہر طرف سے میرے چہرہ کو (سٹچ) ٹانکے لگائے گئے تھے میں کچھ دیر میں پھر سے بیہوش ہوگئی۔

مجھے ہوش آیا تو میں سن رہا تھا کہ میری امی انکٓل سے ہمکلام تھی کہہ رہی تھی کہ ہم سب ٹھیک ہیں، بس نمرا کے بابا نہیں رہے۔ مجھے بہت دکھ ہوا کیونکہ میں دیکھ نہیں سکتی تھی میرے چہرے پر خون جم گیا تھا بس میں سن سکتی تھی۔

بابا والی بات میرے ذہن میں بیٹھ گئی سنگین حالت کے کشمکش میں تھی۔

میری امی نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم نمرا کو کراچی لے جائیں گے،کیونکہ کوئٹہ میں کوئی اچھا سا ڈرمیٹولوجسٹ نہیں ہے اور میری بلیڈنگ بھی بہت ہی زیادہ ہوئی تھی اگر مجھے کوئٹہ کے لیے روانہ کیا ہوتا تو شاید میں آج اس دنیا میں نہیں ہوتی۔

جب مجھے ایمبولینس میں اسٹریچر پر بٹھایا گیا تو میری امی نے مجھ سے کہا (کنا مار) کنامار براہوئی زبان میں جس کا مطلب ہے میرا بیٹا۔ بابا ہمیشہ ہمارے حوصلوں کو بلند کرنے کے لیے یہ لفظ بولتے تھے۔

امی نے کہا نمرا تم اپنے بابا کی اور میری بہادر بیٹی ہو۔ بلند حوصلے کے ساتھ جاؤ بلند حوصلے کے ساتھ واپس آجانا۔ میں اسی کشمکش میں تھی کہ پھر سے بیہوش ہوگئی۔

میں اسی سوچ میں مبتلا تھی کہ اب بابا ہم میں نہیں رہے۔ یہ حقیقت مجھ سے برداشت نہیں ہو رہی تھی۔ مگر مجھے اس حقیقت کو تسلیم بھی کرنا تھا۔ کیونکہ یہ حادثہ خواب نہیں حقیقت تھا۔

پھر میں کراچی پہنچائی گئی۔ میرے کزن مجھے دیکھ کر مُنہ چھپا کر روتے تھے۔ میں نے کزن کو ہمت دی اور کہا یہ زندگی ہے ایسا ہوتا ہے۔

وہاں سے جب مجھے ایمبولینس میں لایا جارہا تھا تو ریسکیو کے دوران میرے چہرے کو مکمل پٹییوں سے ڈھانپ دیا گیا تھا۔ صرف آنکھیں اور ناک ہونٹ کو چھوڑ کر باقی پورا چہرہ ڈھکا ہوا تھا۔

اسپتال منتقل ہوگئے۔ وہاں نرس میرے پاس آئی، پٹی ہٹا دیا اور توبہ توبہ کہنے لگی پھر پٹی رکھ کر چلی گئی۔ میں سوچنے لگ گئی اور خود ہی سے سوال کر رہی تھی کیا یہ حقیقت ہے کیوں لوگ مجھے سے ڈر رہے ہیں؟ آخر میرے پاس آنے کو کوئی تیار کیوں نہیں۔

کچھ دیر بعد اسپشلسٹ ڈاکٹر نے میری ٹریٹمنٹ کرنا شروع کر دیا، آپریشن روم میں پانچ گھنٹے تک آپریشن جاری رہا۔کیونکہ گاڈی کی روڑسز، شیشے چہرے میں پیوند ہو گئے تھے۔ ریسکیو کے دوران میرے چہرے کو صاف کئے بغیر (سٹچ) ٹانکا دیا گیا تھا۔میری فیس پر نائنٹی پلس ٹانکے لگائے گئے تھے،اور تین دن بعد مجھے ہسپتال سے فارغ کردیا گیا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں