بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں منگل کی دوپہر کو “بلوچ مسنگ پرسنز ڈے” کی مناسبت سے سینکڑوں کی تعداد میں مختلف علاقوں سے آکر بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین نے احتجاج کیا –
بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے سرگرم تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی اپیل پر لاپتہ افراد کے دن کی مناسبت سے اس احتجاجی مظاہرے میں لاپتہ افراد کے لواحقین کے ساتھ ساتھ بی این پی مینگل، نیشنل پارٹی، بی ایس او اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کارکان بھی شریک تھے-
بڑی تعداد میں خواتین اور بچوں نے اپنے لاپتہ پیاروں کی تصویریں اٹھا کر انکی بازیابی کا مطالبہ کیا –
8 جون کو بلوچستان میں لاپتہ افراد کا دن منایا جاتا ہے، اس دن بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے سابقہ وائس چئرمین زاکر مجید بلوچ کو بلوچستان کے ضلع مستونگ سے گرفتاری کے بعد لاپتہ کردیا گیا تھا جو گذشتہ 12سالوں سے لاپتہ ہیں –
اس ریلی اور مظاہرے میں لاپتہ طالب علم ذاکر مجید کی والدہ، ڈاکٹر دین محمد کی بیٹی سمی بلوچ، شبیر بلوچ کی بہن سیما بلوچ، راشد حسین کی والدہ اور دیگر سینکڑوں لاپتہ افراد کے لواحقین شریک تھی –
کوئٹہ پریس کلب کے سامنے سے شروع ہونے والے ریلی میں شریک لوگوں لاپتہ افراد کی تصویریں اور مختلف پلے کارڈز اٹھا کر شہر کے مختلف علاقوں سے ہوتے ہوئے ریڈ زون گورنر ہاؤس کے سامنے پہنچ کر دھرنا دیا –
اس موقع پر ارد گرد سیکورٹی فورسز کی بڑی تعداد جمع تھی اور احتجاج کو روکنے کے لئے سیکورٹی فورسز اور لواحقین میں دھکم دھکیل ہوئی۔
اس موقع پر لواحقین نے اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک بار پھر حکومت اور ریاست کے اداروں سے اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کیا –
والدہ ذاکر مجید نے کہا کہ میرے بیٹے کو 12 سال قبل لاپتہ کیا گیا اور آج تک میں اپنے بیٹے کی راہ تکتے امیدوں کے سہارے زندہ ہوں۔ انہوں نے ریاست سے انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے اگر ذاکر مجید مجید اور دیگر لاپتہ افراد کو بازیاب نہیں کیا گیا تو کراچی اور اسلام آباد میں احتجاج کا دائرہ وسیع کرینگے-
احتجاج میں شریک سینکڑوں لاپتہ افراد کی ماؤں نے اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ سالوں سے گمشدہ ہمارے بچوں کو گھروں میں بھیج کر انصاف فراہم کیا جائے –
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ، وائس چیئرمین ماما قدیر، بلوچستان نیشنل پارٹی کے حاجی لشکری رئیسانی، سابق سینیٹر مہیم خان بلوچ اور دیگر رہنماؤں نے کہا کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ انتہائی اہم اور حل طلب ہے –
انہوں نے کہا کہ کوئٹہ کے سڑکوں پر یہ مائیں اپنے بچوں واپسی چاہتے ہیں اور یہ اس ریاست کی ذمہ داری ہے کہ لاپتہ افراد کو منظر عام پر لائیں۔ انہوں نے کہا کہ اب یہ بات عیاں ہوچکی ہے کہ بلوچستان سے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو کس نے جبری طور پر لاپتہ کیا ہیں –
احتجاجی مظاہرے میں کوئٹہ شہر کے مضافات میں واقعہ نیو کاہان کے خواتین اور بچوں نے شرکت کی جنکے پیارے گذشتہ دس سالوں سے لاپتہ ہیں –