کوئٹہ: بلوچ لاپتہ افراد کیلئے احتجاج جاری

113

بلوچ لاپتہ افراد کے لیے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاج جاری ہے۔ احتجاج کو آج 4334 دن مکمل ہوگئے۔ سبی سے سیاسی و سماجی کارکن عبدالکریم بلوچ، ممتاز احمد ابڑو اور دیگر نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہر دن ہر مہینہ محکوم قوم کے لئے ایک جیسا ہوتا ہے، روز لاشوں کا ملنا کسی گھر کے چراغ کا بجھ جانا اور جبری لاپتہ کرنا اب روز کا معمول بن چکا ہے۔ ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کی ٹارگٹ کلنگ جاری ہے جس میں عالمی سامراجیت کے زیر سایہ تسلط اور تشدد کا داغ بیل پڑنے کے بعد طویل عرصے سے استحصال اور خونین کھیل کا میدان بننے والے لہولہان بلوچستان اور اس کے مظلوم باسی قابض پاکستان اور اس کے آلہ کار جابر قوتوں کے رحم و کرم پر شدید غیر انسانی رویوں اور نت نئے سازشوں کا شکار ہیں۔

ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ مظلوموں کی قربانیاں سامراجیت کو نیست و نابود کر دیں گی۔ ان حالات میں جہاں بلوچ قوم کی جان و مال اور عزت و آبرو محفوظ نہیں، آئے روز بر آمد ہونے والی مسخ شدہ لاشوں اور بلوچ ماں بہنوں کی عزت کی دفاع سے کوئی سروکار نہیں رہا انہیں صرف استحصالیت اور قوم دشمنی کے بدلے اپنی پرتعش زندگی کی پڑی ہوئی ہے۔

انہو نے مزید کہا کہ آج بھی مقبوضہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی شدت سے جاری ہیں جس کے ادراک اور روک تھام کیلئے قوموں کے حقوق اور عالمی امن کی ضامن اقوام متحدہ سمیت عالمی معاشرہ خاطر خواہ اقدام کرنے سے قاصر رہی کیونکہ اقوام متحدہ قابض ریاستوں کو مظلوم و محکوم اقوام پر ظلم جبر کرنے سے روکھنے میں ہمیشہ ناکام رہی ہے۔ اور اسی وجہ سے اقوام متحدہ کا منشور انسانی حقوق کا عالمی منشور اور انسانی حقوق کے حوالے سے دیگر اعلامیہ صرف کاغذی رہ چکی ہے۔