بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4338 دن مکمل ہوگئے۔ بلوچ ایکٹوسٹس نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
اس موقع پر وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا پاکستان میں بلوچستان وہ واحد خطہ ہے جہاں فوج حکمرانی کرتی ہے اور فوج کو بے پناہ اختیارات حاصل ہیں اس لیے کیونکہ اس ملک کی خصوصیت یہی ہے کہ سیاسی قیادت ہمیشہ فوج کے تابع رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا تھا کہ بلوچستان میں لوگوں کی بنیادی حقوق آج بھی منظم طریقے سے پامال کیے جارہے ہیں جس میں وہ زندہ رہنے کا حق، رشتہ داروں سے ملنے کا حق، لکھنے اور بولنے کا حق حتیٰ کہ عبادت کا بھی حق چھین لیا گیا ہے لیکن ان تمام پابندیوں کے باوجود آج بلوچستان کے اندر بھر پور پرامن جدوجہد آگے بڑھ رہی ہے۔
دریں اثناء بلوچ اسٹوڈنٹس آرگائزیشن شال زون کے ترجمان کی جانب سے جاری کردہ حمایتی بیان میں کہا گیا ہے کہ بی ایس او شال زون کل وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے طالب علم رہنماء ذاکر مجید بلوچ سمیت دیگر لاپتہ افراد کی جبری گمشدگی کے خلاف اور باحفاظت بازیابی کے لیے کوئٹہ میں ہونے والی پرامن احتجاجی مظاہرے کی بھرپور انداز میں حمایت کرتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان میں سب سے بڑا مسئلہ جبری گمشدگی کی ہے۔ ریاست اس مسئلے کو حل کرنے کے بجائے بلوچ طلباء اور سیاسی کارکنان کو جبری طور پر لاپتہ کرکے اس مسئلے کو وسعت دے رہی ہے۔ بی ایس او شال زون ریاستی اداروں سے مطالبہ کرتی ہے کہ طالب علم رہنما ذاکر مجید بلوچ سمیت تمام لاپتہ طلباء اور کارکنان کو باحفاظت بازیاب کرے۔