کراچی پولیس کا بلوچستان کے شہریوں سے لوٹ مار کا انکشاف، گوادر کے شہری سے تلاشی کے نام پر 30ہزار روپے چھین لیے گئے۔
تفصیلات کے مطابق گذشتہ روز گوادر کے کاروباری شخص حاجی محمد کاروبار کے سلسلے میں گوادر سے کراچی پہنچے تو کراچی کے علاقے سائیٹ بی ایریا پولیس تھانے کے حدود میں ان سے پولیس اہلکار نے تلاشی کے نام پر جیب سے 30ہزار روپے ہتھیا لیے –
زرائع کے مطابق لسبیلہ گوادر سے منتخب آزاد رکن پاکستان اسمبلی اسلم بھوتانی نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے فورا متعلقہ ڈی آئی جی سے رابطہ کرکے اپنے حلقہ انتخاب گوادر سے تعلق رکھنے والے شہری کو انصاف دلانے کا مطالبہ کیا جس پر ڈی آئی جی نے متعلقہ ایس پی کو معاملے کی انکوائری کا حکم دیدیا ہے۔
جبکہ سندھ کے مرکزی شہر کراچی کے علاقے لیاری سے پاکستان تحریک انصاف کے رکن پاکستان اسمبلی شکور شاد نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ مکران سمیت بلوچستان کے عوام علاج کے لیۓ کراچی آتے ہیں، سندھ پولیس غریب بلوچوں سے نارواسلوک کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ پولیس کی جانب سے مکران سمیت بلوچستان کے لوگوں کی عزت نفس مجروح کرنے کا نوٹس لیا جائے۔ ہم سب کو پتہ ہے کہ مکران سمیت بلوچستان بھر کے لوگ علاج و معالجے سے لیکر زندگی کے دیگر ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کراچی کا رخ کرتے ہیں، چونکہ صوبہ بلوچستان صحت سے لیکر زندگی کے دیگر شعبہ جات میں بھی پیچھے ہے، سندھ پولیس کی لوٹ مار اور اور عزت نفس مجروح ہونے سے نہیں بچ جاتے۔
یہ سلسلہ کئی سالوں بلکہ دہائیوں سے جاری و ساری ہے، جب بھی بلوچستان سے کوئی غریب اور ان پڑھ لوگ کسی کام کی غرض سے کراچی جاتے ہیں تو سندھ پولیس انہیں بلاوجہ روک کر تنگ کرتا ہے، ان سے ایسے توہین آمیز و نفرت بھری انداز میں پیش آتا ہے جیسے وہ کوئی دہشتگرد ہے، پولیس تلاشی کے بہانے ان کے پیسے سمیت دیگر قیمتی اشیاء کو لوٹ لیتے ہیں، اگر کوئی دینے سے انکار کرے تو اس پر تشدد کرکے اسے تھانے لیجا کر اس پہ منشیات سمیت مختلف دفعات کا کیس لگا کر ذلیل و خوار کرتے ہیں۔
گوکہ یہ بلوچستان سے کراچی آنے والے یہ مریض غریب و بزگر ہوتے ہیں جنہیں دو وقت کی روٹی مشکل سے میسر ہوتی ہے، وہ اپنی جمع پونجھی اور لوگوں سے ادھار لیکر علاج کے لیے کراچی آتے ہیں تو یوسف گوٹھ سے نکلتے ہی سندھ پولیس کا نشانہ بنتے ہیں۔
پہلے یہ ہوتا آرہا تھا کہ سندھ پولیس بلوچی رسم و رواج کا لاج رکھتے ہوئے خواتین کو سائیڈ پہ کرکے مرد حضرات کو لوٹ لیتے تھے مگر آج کل سندھ پولیس اس حد تک آ پہنچی ہے کہ بلوچی اور اسلامی روایات کو روند کر خواتین کو بھی تلاشی کے بہانے مختلف بدتمیزی اور غیراخلاقی طریقے سے تنگ کرکے ان کی عزتِ نفس کو مجروع کرتے ہیں-
اس حوالے سے مکران کے لوگ پہلے بھی کئی بار آواز اٹھاچکے ہیں مگر ایوانوں میں بیٹھنے والے لیڈران کی کانوں میں جوں تک نہیں رینگی۔
ایک مرتبہ پھر ہم وزیراعلی بلوچستان جام کمال خان، وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ اور سندھ حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ ان بدمعاش اور چور پولیس والوں کے خلاف بھرپور ایکشن لیں۔