پنجاب و سندھ کے بلوچ,شناختی بحران کا شکار
تحریر : شہے نوتک
دی بلوچستان پوسٹ
تحریر کو نبشتہ کرنے سے پہلے اُس اہم نقطے پر بات کرنا چاہوں گا کہ جس کے گرد میرے تمام تر الفاظ طواف کریں گے کہ ہم اکثر یہ ذکر سنتے ہیں کہ”جو بلوچ سندھ یا پنجاب جاکر آباد ہوئے وہ زبان بھول رہے ہیں” بات حقیقت ہے مگر ایک اور تلخ حقائق یہ بھی ہے کہ بلوچ سندھ/پنجاب جاکر آباد نہیں ہوا بلکہ سندھ یا پنجاب آکر بلوچ علاقوں میں آباد ہوا مثال کے طور پر ڈیرہ غازی خان ,جوکہ بلوچوں کی مرکزی حکومت 1410 سے1856 تک بلوچستان میں شامل رہا بلکہ قبل از مرکزی حکومت ڈیرہ جات پر بلوچ حاکمیت کے سائے رہے ، پھر پنجاب آکر میرے ڈیرہ جات میں آباد ہوا ۔
بالکل اسی طرح شہداد کوٹ ، شکار پور تا ٹھٹہ لغاری یہ بلوچ اکثریتی علاقے بلوچوں کے آباد کردہ اور بلوچستان کا حصہ رہے ہیں پھر سندھ ان میں اکر آباد ہوتا ہے۔
اب موضوع کی طرف آتے ہیں کہ ان خطوں کا بلوچ شناختی بحران کا شکار کیوں ہے؟
سندھ کا مینگل ,پتافی ,جتوئی,مستوئی ڈومبکی,رند, لغاری چانڈیو اور ڈیرہ جات(ڈیرہ و راجن پور) کا مزاری , دریشک , بزدار , نوتکانی , لغاری , احمدانی ,کلاچی , دریشک , گوپانگ وغیرہ
یہ سب آج خود کو سندھی اور سرائیکی قومیت سے کیوں کر جوڑ رہے ہیں؟ بلوچی و براہوئی سے سندھی اور سرائیکی کا سفر کیوں اتنا آسان ہوا؟ ان سب پہلو پر نظر ڈالنے کے لئے ہم دیکھتے ہیں کہ سب عوامل میں جو قابلِ غور عنصر ہے وہ ہے “مارکیٹ کی زبان ” Market Language”مارکیٹ کی بولی یا زبان یا آسان لفظوں میں کہوں تو وہ زبان جو آپ مارکیٹ میں بولتے ہیں ۔ جوکہ مقامی لوگوں، ان کے بول چال اور حال احوال پر کافی اثر انداز ہوتی ہے ۔
جب شہداد کوٹ یا شکار پور کو بلوچستان سے کاٹ کر سندھ میں اور ڈیرہ جات بشمول راجن پور کو کاٹ کر پنجاب سے ناطہ ملایا گیا تو نہ صرف سرحدیں کٹیں بلکہ لوگوں کے مسائل و خوشی غمی بھی بلوچستان سے کٹ کر بہالپور یا ملتان سے وابستہ ہوگئے جہاں پر عباسی اور ملتان کے مقامیوں کی مقامی زبان”سرائیکی” مارکیٹ لنگویج تھی
اب اس مارکیٹ لنگویج سے جو گہرا اثر پڑا وہ تھا روز مرہ ان لوگوں سے واسطہ پڑنا ۔
مثال کے طور پر مجھے روز مرہ زندگی میں روزانہ چار پانچ بار مارکیٹ جانا ہوتا ہے یا یوں دیکھیں سندھ یا پنجاب میں وہی خطے جو کل کاٹے گئے وہ کتنے ترقی کررہے؟ بلکہ باقی شہروں کی نسبت پسماندہ ترین تو لازمً میری تعلیم ,صحت ،کاروبار سب ملتان بہاولپور سے وابستہ ہونی تھی تو وہاں جاکر مجھے انہی کی زبان میں بتانا ہوتا کہ مجھے فلاں مرض لاحق ہے یا فلاں چیز لینی ہے ۔
ان سب عوامل میں میرا بول چال میری باتیں میری زباں میں نئے الفاظ کی آمدورفت کا اغاز ہوتا ہے یہ کچھ دنوں کی بات نہیں بلکہ اس عمل میں صدیاں لگیں اور سب سے جو بڑا قہر ہم پر ٹوٹا وہ تھا اس خطے کی سکول کالج کی زبان، بالفرض سندھ جب میرے علاقوں میں آباد ہوتا ہے تو وہ کراچی سے شہداد کوٹ سندھی کو عام نصاب میں شامل کرتا ہے۔ اور پنجاب اپنے نصاب میں پنجابی اور سرائیکی زبان کو شامل کرتا ہے تو ایک بلوچی سپیکر بلوچ کو بھی انہی زبانوں کو پڑھنا ہوتا ہے لکھنا ہوتا ہے اور اگر ایک سرائیکی بولنے والا بلوچ ہے تو وہ مزید لنگویج کرائسس کا شکار ہوگا۔
یہ سب عوامل زبان سے دوری کی وجہ بنتے گئے مگر ہاں ایک خوبصورت پہلو یہ بھی ہیکہ آج ان علاقوں میں پگڑی بھی باقی ہے بڑی شلوار بھی سلامت ہے بلوچوں والا حال احوال بھی ہوتا ہے مگر سرائیکی و سندھی زبانوں میں , جس کی وجہ وہی مارکیٹ زبان ہے
مگر مسلہ اس سے بڑھ کر آج اسی زبان کو قوم بنا کر پیش کیا جارہا ہے ۔
جیسا کہ ڈیرہ جات و سندھ کے بلوچ خود قومیت پر کنفوژ ہیں وہ سمجھتے چونکہ دادا ابن پردادہ سے سرائیکی بولتے ہیں اس لئے وہ “سرائیکی ” ہیں
یا سندھ کا بلوچ سمجھتا کہ میں چونکہ سندھی بول چال رکھتا ہوں اس لئے سندھی ہوں ۔
حالانکہ شناخت زبان سے نہیں قوم سے ہوتی ہے بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ بلوچ ایک نسل ہے ایسی نسل کہ جس میں سیکڑوں زبانیں بولی جاتی ہیں مگر شناخت وہی ہے کہ جس کا خون اس کی رگوں میں دور رہا ہوگا
اگر میں کہوں کہ میں بزدار یا لاشاری یا گورمانی یا مستوئی ہوں اور سرائیکی بولتا ہوں اس لئے میں سرائیکی ہوں جوکہ قطعی غلط بات ہوگی کیونکہ میرا ایک شجرہ ہے اس شجرے میں میرے لوگ ہیں بلوچیت ہے میرا اپنا خون ہے جو مجھے ملام کرے گا کہ تم نسل در نسل بلوچ ہو زبان کی بنا پر تم کیسے اپنی شناخت بھول سکتے ہو ؟ اگر زبان ہی قوم ہے تو ایک گونگے کی کیا قوم ہوگی؟
یہ سب باتیں ڈیرہ جات اور سندھ کے بلوچوں کو سمجھنی چاہیں کہ زبان ہمارا مسلہ تو نہیں مگر ہاں زبان سے ہمارے مسائل اب شناخت کی طرف جارہے ہیں، عین ممکن ہے کہ میری تیسری چوتھی نسل کسی نئی مارکیٹ کی زبان سے متاثر ہوکر خود کو نئی قوم کا نام دے دیں تو عمل رکنا نہیں اور میں نسل در نسل اپنی پہچان کھو دوں گا کہ میں سو سال پہلے بلوچ تھا اب سرائکی ہوں کل کلاں پنجابی پھر مہاجر ہوں۔
پڑھے لکھے نوجوانوں کو یہ پہلو سمجھنا ہوگا کہ قوموں کا وجود میں آنا کل یا منگل بدھ کا واقع نہیں , اس کی بقا میں نسلوں کا خون شامل ہے ڈیرہ جات و سندھ کے بلوچ تمہارے کاندھوں میں بزرگوں کی وراثت و نئی نسل کا مستقبل ہے، سمجھ کر آگے بڑھیں کہ ہماری قومی شناخت کہیں اپنے باپ دادا سے مختلف تو نہیں ؟
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں