پاکستانی اور عالمی قوانین، کیلکور واقعے کی تناظر میں – زیب بلوچ

282

پاکستانی اور عالمی قوانین، کیلکور واقعے کی تناظر میں

تحریر: زیب بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

عالمی قوانین آفاقی حیثیت رکھتی ہیں اور ان کی فوقیت دنیا ہائے کی قوانین کے لئے ہیں، اس کے لئے ضروری ہیکہ قومی قانون بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہونی چاہئیں، یہ حقوق جو کہ آفاقیت کی حیثیت رکھتے ہیں انہیں کسی بھی صورت میں سلب نہیں کی جاسکتی،
جسکی ریپ اور بھی کئی دردناک مثالیں ہیں۔

مثلاً دوسری جنگ عظیم میں جب جرمنی کی شکست کے بعد روسی فوجی وہاں گئے تو انہوں نے بھی اپنی فتح کے نتیجے میں جرمن عورتوں کا بطور انتقام ریپ کیا۔ بنگلہ دیش کی حکومت نے بھی نشاندہی کی ہے کہ فوجی ایکشن کے بعد اُن کی عورتوں کا بڑے پیمانے پر ریپ کیا گیا تھا اور انہوں نے حاملہ ہونے کے بعد بچوں کو جنم بھی دیا۔ بنگلہ دیش کی حکومت نے یہ ثبوت اعداد و شمار کے ساتھ پیش کیے ہیں۔

پاکستانی قانون ریپ پر ایک نظر
پاکستانی قانون کی رو سے “ریپ” صرف اس صورت میں ہوتا ہے جب کسی عورت کے ساتھ اس کی مرضی کے بغیر جماع (sexual intercourse) کیا جائے۔ ملاحظہ کیجیے: مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 375۔

اسی طرح “زنا” صرف اس جرم کو کہا جاتا ہے جب مرد اور عورت، جن کا آپس میں نکاح نہ ہو، جماع کریں۔ ملاحظہ ہو: جرمِ زنا (نفاذ حدود) آرڈی نینس کی دفعہ 4۔

مزید یہ کہ اسے fornication بھی نہیں کہا جاسکتا جو “زنا مستوجبِ تعزیر” کا نیا نام ہے۔ ملاحظہ کیجیے: مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 496 بی۔

تو پھر اس جرم کا نام کیا ہے؟
اس جرم کو پاکستانی قانون کی رو سے “غیر فطری جرائم” (unnatural offences) میں شمار کیا جاتا ہے اور اگر ایسے جرائم میں دبر میں دخول (carnal intercourse) ثابت ہو، تو جرم کی سزا عمر قید ہوسکتی ہے۔ دیکھیے: مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 377۔ اگر دبر میں دخول تو ثابت نہیں ہوسکا لیکن دیگر افعال ثابت ہوں جن کو قانون غیر فطری جرائم میں شمار کرتا ہے، تو اس صورت میں جرم کو جنسی بدسلوکی (sexual abuse) کہا جاتا ہے اور اس کی سزا سات سال تک قید یا/اور پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ ہے۔ دیکھیے: مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 377 اے اور بی۔

عالمی قوانین کی تناظر میں
‏International armed conflicts
‏In situations of international armed conflict, the following provisions are of relevance to the prohibition against rape and other forms of sexual violence:
‏- Art. 12, GC I and Art. 12, GC II, on the general protection of the wounded and sick and the shipwrecked of the armed forces, with a special reference to women
‏- Arts 13 and 14, GC III, on the general protection of prisoners of war, with a special reference to women (Art. 14(2))
‏Art. 27(2), GC IV, which explicitly provides that “[w]omen shall be especially protected against any attack on their honour, in particular against rape, enforced prostitution, or any form of indecent assault”
‏- Art. 75(2)(b), AP I, which prohibits “outrages upon personal dignity, in particular humiliating and degrading treatment,
‏enforced
‏prostitution and any form of indecent assault”
‏- Art. 76(1), AP I, which explicitly provides that “[w]omen shall be the object of special respect and shall be protected in particular against rape, forced prostitution and any other form of indecent assault”
‏- Art. 77(1), AP I, which provides that “[c]hildren shall be the object of special respect and shall be protected against any form of indecent assault.”
‏It should be noted that rape and other forms of sexual violence can, depending on the circumstances, also fall under other prohibitions of IHL, such as the prohibitions against violence to person, against torture and against inhuman treatment.

ان تمام قوانین کے ہوتے ہوئے کیا میرے وطن کے باسیوں کو کوئی اور الہامی ذریعے سے احساس ہوگا کہ ہم غلام بنائے جا چکے ہیں، کیونکہ غلام سماج میں قابض کے لئے قوانین صرف اور صرف کاغذوں میں وجود رکھتے ہیں تاکہ میں ان کے چند دیسی دانشوری کو مطمئن کرسکوں کہ یہاں قوانین موجود ہیں۔

کیا ہمیں کسی ایسے دانا کا انتظار کرنا ہوگا جو آکر ہمیں احساس دلائے کہ ہم کچلے ہوئے لوگ ہیں؟ کیا ہم خدائی مدد یا کسی معجزے کے منتظر ہیں جو ہمیں غلامی سے نجات دلائے گا؟

اب ،جاگو، اٹھو ہم بہت سو لئے۔ عالمی بھائی چارے کے اصولوں کا تقاضہ ہے کہ انسان کے ہاتھوں انسان اور قوم کے ہاتھوں قوم کا استحصال ہر صورت ناممکن بنایا جائے۔کسی امتیاز کے بغیر ہر ایک کو یکساں مواقع میسر ہوں۔مگر بلوچستان میں پاکستانی سامراجی ان تمام باتوں کی براہ راست نفی کرتا ہے اور یہ ہمارے لئے ناقابل قبول ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں