سات سال قبل لاپتہ ہونے نصیب اللہ بادینی تاحال بازیاب نہ ہوسکے۔ لواحقین نے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ میں شرکت کرکے ملکی اور بین الاقوامی اداروں سے اپیل کرتے ہوئے کہا نصیب اللہ بادینی کو بازیاب کیا جائے۔
کیمپ میں نصیب اللہ بادینی کی ہمشیرہ ماہ نور بلوچ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرے بھائی کو 25 نومبر 2014 کو پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں نے نوشکی کے علاقے قاضی آباد سے میرے چھوٹے بھائی کے سامنے ہمارے دوکان سے جبری طور پر حراست میں لے کر لاپتہ کردیا، جو تاحال لاپتہ ہے۔
انہوں نے کہا نصیب ایک ہونہار طالب علم اور فرمانبردار نوجوان تھا۔ اس کے علاوہ ملکی سطح پر وہ ٹیکوانڈو کا ایک گولڈ میڈلسٹ ہے۔ نصیب کی جبری گمشدگی سے ہمارے گھر کی خوشیاں ختم ہوگئی ہے اور والد اپنے بیٹے کی غم میں شوگر کا مریض بن چکا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے نصیب اللہ کے بازیابی کے لئے دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین کی طرح اپنی جولی ہر طرف پھیلائی مگر ہر جگہ ہمیں جھوٹی تسلیاں اور خاموش رہنے کو کہا گیا۔
انہوں نے کہا میری ماں ہر وقت اسی سوچ میں ہے کہ وہاں اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جارہا ہے، لاپتہ افراد دیگر لوگوں کے لئے محض شاہد الفاظ ہو مگر ان سے پوچھے جن کے لخت جگر لاپتہ کئے گئے ہیں ان سے پوچھے کس طرح اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔
انہوں نے اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کرتے ہوئے کہا وہ نصیب اللہ بادینی کی بازیابی کے لئے اپنا کردار ادا کریں اور ہمیں یہ بھی بتایا جائے کہ اس نے کیا کیا ہے اور اس کا قصور کیا ہے اگر اس نے کوئی گناہ کیا ہے تو عدالتیں موجود ہیں اسے عدالتوں میں پیش کریں۔
اس موقع پر لواحقین نے نصیب اللہ کے جبری گمشدگی کے حوالے تفصیلات اور کاغذات وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ کو فراہم کیے۔