مارواڑ میں لاپتہ افراد کو جعلی مقابلے میں قتل کیا گیا – ماما قدیر بلوچ

590

مارواڑ میں جبری طور پر لاپتہ افراد کو قتل کیا گیا، عالمی اداروں کو بلوچستان میں ہونے والے انسانیت سوز واقعات پر خاموشی  قابل مذمت ہے،  ان خیالات کا اظہار وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کیا۔

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وی بی ایم پی کے احتجاج کو 4351 دن مکمل ہوگئے۔ نیشنل پارٹی کے رہنماء ڈاکٹر شمع اسحاق اور دیگر نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی جبکہ نوشکی سے لاپتہ نوجوان نصیب اللہ بادینی کے والدہ اور دیگر نے پریس کانفرنس کی۔

ماما قدیر بلوچ کا گذشتہ دنوں مارواڑ میں سی ٹی ڈی کے کاروائی کے حوالے سے کہنا تھا کہ مذکورہ کاروائی جعلی مقابلہ تھا جہاں پہلے سے زیر حراست افراد کو قتل کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ افراد میں علی بیگ ولد داعی خان، خیرو ولد شاہ میر، مراد عرف مدو ولد نہال خان اور مراد بخش ولد نور خان شامل تھے۔ مارے جانے افراد میں ملا مادو مزارانی مری شامل ہیں جنہیں دو سال قبل کوئٹہ میں جتک اسٹاپ پر واقع ان کے گھر سے پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں نے حراست میں لیکر لاپتہ کردیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ تمام چار افراد کو قریب سے سروں میں گولیاں ماری گئی ہیں۔ یہ امر فائرنگ کے تبادلے یا آمنے سامنے کے مقابلے کے دعوے کو مزید کمزور کرتی ہے۔ جبکہ ان کے داڑھی بڑے تھے جس کا مشاہدہ عموما لاپتہ افراد کے بازیابی کی صورت میں کی جاسکتی ہے۔

ماما قدیر کا کہنا تھا کہ دیگر افراد کے حوالے سے بھی تفصیلات جمع کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاہم بلوچستان کے ہر کونے سے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو لاپتہ کیا گیا، پہاڑی اور میدانی علاقوں میں آباد متعدد افراد کے لواحقین سالوں سے لاپتہ اپنے پیاروں کے نام تک تنظیموں تک پہنچا نہیں سکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان سی ٹی ڈی اور دیگر پاکستانی اداروں کی جانب سے لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں قتل کرنا انتہائی تشویشناک ہے۔ عالمی اداروں کو ان واقعات پر اپنی خاموشی تھوڑنی چاہیے کیونکہ ان کی خاموش بلوچستان میں پاکستانی جرائم کو مزید تقویت فراہم کررہی ہے۔