علی سدپارہ اور منصور بلوچ میں تفریق
تحریر: خدیجہ علی قمبرانی
دی بلوچستان پوسٹ
علی سدپارہ کا تو سب نے تو سنا ہے جو کہ ایک مشہور کوہ پیما تھا ،جس کے بڑے بڑے کامیابیاں تھیں، انہوں نے نہ صرف پاکستان میں بلکہ پوری دنیا کی لمبی چوٹیوں کو سر کر نےکااعزاز حاصل کیا ۔ اپنے آخری مشن پے k2 کے چوٹی سے غائب ہوگئے تھے اور پاکستان کے سب سے بڑے آپریشن علی سدپارہ کو ڈھونڈنے کے لئے کی گئی۔ فضائی اور زمینی افواج سمیت ہر طرح سے سرکار نے اسے ڈھونڈنے کی کوشش کی.
ٹھیک اسی طرح بلوچستان کا ایک غریب سا لڑکا منصور قمبرانی جو کے ایک بلوچ ہے اپنی مدد آپ بلوچستان کے مختلف پہاڑوں کی چوٹیوں پہ چڑھتا اور اس شوق کو تقویت پہنچاتا اور بلوچستان کے خوبصورت پہاڑی منظر کو ایکسپلور کرتا رہا، بجائے اس کے کہ منصور کو اعزاز ملتا اسے سرکار نے لاپتہ کردیا ، منصور قمبرانی کوہ چلتن، کوہ زرغون، کوہ نکان وغیرہ پر اکثر پکنک منانے اور گھومنے جاتے تھے ، اور ان سب پہاڑوں پر شجرکاری بھی کرتا۔ پہاڑوں کی بلندیوں کے مختلف تصاویر بنا کر فیس بک پر اپلوڈ کرتا تھا اور دنیا کو بتاتا تھا کہ میں بھی علی سدپارہ سے کم نہیں خوبصورت نیچر کی فوٹوز اپ لوڈ کر کے بتاتا تھا کہ میں بھی کسی ورلڈ فوٹو گرافر سے کم نہیں لیکن کہانی میں موڑ تب آیا جب میں نے دیکھا کہ منصور کو گھسیٹ کر سرکار نے بلیک ویگو میں ڈالا اور غائب کردیا۔
منصور کا چہرہ بتا رہا تھا کہ تو علی سدپارہ نہیں بلکہ تمہارا ایک محکوم قوم سے تعلق ہے تم نے ایڈونچر کرکے بہت بڑی غلطی کی ہےتمہیں معلوم نہیں تم ایک بے بس پسماندہ صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھتے ہو ۔اور ظلم کی انتہا تو یہ ہے منصور کی آنکھیں بتا رہے تھے خدارا میرے لگائے ہوئے درختوں کو پہاڑوں کی دامن میں پانی پلانے والا کوئی نہیں ہوگا، خدا را مجھے چھوڑ دو میرا نہیں ان معصوم درختوں کا خیال کرو لیکن سننے والا کوئی نہیں تھا اور اب بھی بہت سارے درخت پہاڑوں کے دامن میں منصور کا انتظار کر رہے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں