بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی سیکرٹری جنرل مہرزاد بلوچ نے اپنے جاری کردہ بیان میں جبری گمشدگیوں کے حوالے سے عالمی اداروں کی غیر سنجیدہ کردار پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دہائیوں سے جبری طور پر لاپتہ بلوچ اسیران پر عالمی اداروں کی خاموشی اداروں کے کردار پر ایک سوالیہ نشان ہے۔
انہوں نے کہا جہاں ایک جانب بلوچستان میں ظلم و جبر تسلسل کے ساتھ زور پکڑتی جا رہی ہے اور روزانہ کی بنیاد پر درجنوں نہتے بلوچ افراد کو جبری طور پر لاپتہ کیا جا رہا ہے وہیں عالمی ادارے اِس تمام غیر انسانی اور غیر قانونی عمل پر خاموشی کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں. عالمی قوانیں جہاں اِس تمام عمل کو ایک جانب غیر انسانی اور انسانیت سو جرم قرار دیتی ہیں وہیں دوسری جانب بلوچستان میں جاری پاکستان کی غیر انسانی اعمال پر خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ عالمی اداروں کی پراسرار خاموشی جہاں اِس طرح کے انسانیت سوز واقعات کو ایندھن فراہم کر رہی ہے وہیں پاکستان بھی بغیر کسی تفریق کے بلوچ نوجوان، عورتوں اور بوڑھوں کو تسلسل کے ساتھ جبری طور پر لاپتہ کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریاستی جبر نے پورے بلوچستان کو اپنے لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد روز اول سے ریاستی عتاب کا شکار رہی ہے.گزشتہ دو دہائیوں میں تنظیم کے سینکڑوں کارکنان کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا, درجنوں کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئی اور سینکڑوں تاحال لاپتہ ہیں. بی ایس او آزاد کے سابق وائس چیئرمین ذاکر مجید بلوچ کو آج سے بارہ سال قبل مستونگ سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا اور ایک دہائی سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود تاحال ذاکر مجید بازیاب نہیں ہوئے. ذاکر مجید بلوچ کے خاندان نے کوئٹہ سے لیکر کراچی اور کراچی سے لیکر اسلام آباد تک لانگ مارچ کا کیا اور درجنوں احتجاجی مظاہرے کیے. عالمی اداروں میں کیس دائر کرنے کے باوجود آج انھیں بارہ سال کا طویل دورانیہ مکمل ہونے والا ہے لیکن تاحال انھیں منظر عام پر نہیں لایا گیا. تنظیم کے سابق چیئرمین زاہد بلوچ کو 20مارچ 2014کو کوئٹہ سے جبری طور لاپتہ کیا گیا اور طویل دورانیہ گزرنے کے باوجود آج تک اُن کا کوئی پرسان حال نہیں۔ تنظیم کے سابق انفارمیشن سیکرٹری شبیر بلوچ گذشتہ پانچ سال سے جبری اسیری کی زندگی گزار رہے ہیں. تنظیمی رہنماؤں سمیت سینکڑوں کارکنان تاحال زندانوں میں پابند سلاسل ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جہاں ایک جانب ریاست لاپتہ افراد کے بازیابی کا دعوی کرتی ہے تو وہیں درجنوں افراد روزانہ کے بنیادوں پر جبری طور پر لاپتہ کیے جاتے ہیں. گزشتہ ہفتے ٹکری بہادر علی کیازئی نامی شخص کو ریاستی ادروں نے جبری طور لاپتہ کیا اور اُن کا خاندان گزشتہ ایک ہفتے سے مسلسل دھرنا دیے ہوئے ہیں لیکن عالمی اداروں سمیت دوسرے انسانی حقوق کے ادارے ایسے غیر انسانی اعمال پر مکمل لاتعلقی اور غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
اپنے بیان کے آخر میں انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ سنگین شکل اختیار کرتی جا رہی ہے. ہزاروں کی تعداد میں خاندان اپنے پیاروں کے بازیابی کی راہ دیکھ رہے ہیں لیکن عالمی ادارے اِس حوالے سے کسی قسم کا کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں. عالمی اداروں سے درخواست کی جاتی ہے کہ جبری گمشدگی جیسے غیر انسانی عمل پر پاکستان کو جوابدہ کیا جائے اور بلوچ لاپتہ افراد کی باحفاظت بازیابی میں کلیدی کردار ادا کریں تاکہ لاپتہ افراد کا راہ تکتی اُن کے پیارے موجودہ کرب سے چھٹکارا پاسکیں ۔