شہید نوتک
تحریر:بختیار بالاچ
دی بلوچستان پوسٹ
قوموں کی نصیب کردار بدلتے ہیں ، تاریخ عالم میں ہمیں ایسے کئی کرداریں ملینگی جہنوں نے قوموں کی نصیب تبدیل کی ہیں۔ بلوچستان میں ایسی کئی کرداریں موجود ہیں۔
آج کئی بلوچ نوجوان بلوچ قومی تشخص کے لئے جدوجہد کررہے ہیں جنگ کررہے ہیں۔ جنگ کا دوسرا نام تباہی ہے اور تباہی میں ہرچیز آتا ہے اپنے پیاروں کو چھوڑنا اپنے بچپن کی یادوں سے لے کر آبائی علاقے تک کو چھوڑنا۔
تاریخ عالم میں وہی لوگ جگہ بناپاتے ہیں جو قربانیاں دیتے ہیں اور اپنے مقصد کو عظیم سمجھتے ہیں اور اپنے مقصد کے لئے مرنا اور جینا اولین ترجیح ہوتی ہے۔
آج میں ایک ایسے نوجوانوں کے بارے میں لکھنے کی کوشش کررہا ہوں جنہوں نے اپنی پوری زندگی کو بلوچستان کے لئے وقف کردیا تھا۔
میں بات کررہا ہوں شہید نوتک ، شہید کوبرا اور انکے دیگر ساتھیوں کے حوالے سے جنہوں ایک سال قبل بلوچستان کی حفاظت کرتے ہوئے اپنے جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
نوتک ایک ایسے انسان تھے جو ہروقت اپنے زمین اور جہد کے علاوہ کچھ سوچ بھی نہیں سکتا تھا، ہروقت وہ اسی سوچ میں تھا کہ ہم کیا کریں کیسے کریں کہ اس جہد کو فائدہ پہنچ پائے ۔ اپنے ہر دوست کے ساتھ بھائی کی طرح پیش آتا تھا اور ہر وقت لوگوں کو یہی کہتا تھا کہ آپ لوگ کتابوں کو اپنا دوست بنانا چاہیئے۔ نوتک ایک عالم تھے اور وہ علم اور ادب سے بخوبی واقف تھے اور اسی نوتک نے اپنی جان کی پرواہ کیئے بغیر فدائی حملہ کیا۔
شہیدنوتک جان کے تین اور ساتھی بھی تھے اور ان تین ساتھیوں میں ایک کا نام شہید کوبرا اور تسلیم بلوچ شہید یاگی جان بلوچ تھے جہنوں نے اپنی کم عمری میں اپنی جانیں بلوچستان کے لئے قربان کردیں۔ یہ تینوں بلکہ ہزاروں بلوچ نوجوان اپنی جانوں کو اس ُلمہ وطن کی خاطر قربان کرچکے ہیں اور کررہے ہیں۔
دنیا میں جب بھی ظلم اور جبر نے سراٹھایا ہے اور اسی ظلم کے خلاف نوجوان سرباکفن ہوئے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں