شہدائے مارواڑ بولان
تحریر: اسد واھگ
دی بلوچستان پوسٹ
تاریخ گواہ ہے کہ بلوچ نے کبھی کسی غیر کو اپنی سرزمین پہ برداشت نہیں کیا ہے، یہ مثال ہمیں بلوچستان کہ ہر محاذ پر موجود سرفروشوں سے ملتا ہے۔ چند سال قبل بولان کے انہی پہاڑوں میں بلوچ سرزمین کے ایک بہادر فرزند چیئرمین فتح نے دشمن کے مورچوں میں گھس کر انہیں شکست سے دوچار کیا اور فتح کا جھنڈا لہرایا۔ آج اسی کے نقش قدم پہ چل کر بی ایل اے کے فتح اسکواڈ کے شہید آفتاب جتک، شاویز زہری، ہنگل مری اور ساتھیوں نے ایک بار پھر دشمن کو یہ سبق دیا کہ فتح کل بھی زندہ تھا اور آج بھی زندہ ہے۔ وہ تمہیں ہر وقت اسی طرح شکست سے دو چار کرتا رہے گا۔
ہمارے باشعور نوجوان کبھی بھی اپنے ضمیر کا سودا نہیں کرتے۔ بلوچ وطن کے جانباز سپاہی 31 مئی کو بولان کے علاقے مارواڈ میں پاکستانی آرمی کے چیک پوسٹ پر حملہ کرتے ہیں ، جس سے پاکستانی فوج کے 25 اہلکار مارے جاتے ہیں اور سرمچار پوسٹ کے تمام فوجی ساز و سامان اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ اس حملےکی ذمہ داری بی ایل اے نے قبول کرتے ہوئے اپنے بیان کہا کہ ہمارے تین ساتھی انتہائی بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے ہیں۔ جن کے نام شہید ہنگل مری، شہید شاویز زہری اور شہید آفتاب جتک ہیں۔
شہید آفتاب کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے اسلام آباد میں قائداعظم یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے۔ دوسال قبل انہوں نے اپنی تعلیمی زندگی کو الوداع کرکے بلوچ لبریشن آرمی میں شمولیت کرکے اپنے وطن و قوم کی بقاء کا راستہ چنا۔ وہ ایک ایسا نوجوان تھا جسے ذاتی زندگی میں کسی چیز کی کمی نہ تھی مگر پھر بھی وہ غلامی کا مارا تھا جس نے اس کی ضمیر کو جھنجوڑا اور اسے غلامی کا احساس شدت سے دلایا اور یوں چلتے چلتے وہ اپنے حقیقی سفر پر نکل پڑا۔
یہ جنگ شعوری جنگ ہے اور اس میں ہمیشہ باشعور نوجوان شامل ہوتے ہیں۔ وہ اسے اپنا فرض سمجھ کر سر توڑ جدوجہد کرتے ہیں اور آخر کار اس کی خاطر لہو بہانے سے نہیں ہچکچاتے۔
اگر لوگ پوچھتے ہیں کہ طالب علم نوجوان کیوں پہاڑوں کا رخ کرتے ہیں اور قلم کو چھوڑ کر بندوق کیوں اٹھاتے ہیں؟ تو اس کا واضح جواب یہی کہ وہ اپنے وطن پر غیروں کی قبضہ گیریت کو دیکھتے ہیں، اپنے اور اپنی قوم پر ہونے والے انسانیت سوز مظالم کو محسوس کرتے ہیں اور اپنی زبان پر دشمن کی غلیظ زبان کا بہ زور مسلط دیکھتے ہیں تو یہ غلامی ان سے نہیں سہا جاتا۔
اس سے پہلے بھی دو نوجوان “شہید شہداد اور شہید احسان” جو قائداعظم یونیورسٹی کے ہی اسٹوڈنٹس تھے انہوں نے بھی غلامی شدت سے محسوس کیا تھا جس سے انہوں نے تعلیمی زندگی کو ترک کرکے پہاڑوں کو اپنا مسکن بنا کر اس بقاء کی جنگ میں شامل ہوئے اور غلامی کیخلاف بندوقیں تھام کر دشمن سے نبرد آزما ہوئے اور آخر میں ایک دن دشمن سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کی۔
جب ظلم حد سے بڑھ جائے تو مزاحمت فرض بن جاتا ہے اور ہر باشعور نوجوان اس مزاحمت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اگر دشمن کی ساتھ نسلیں ایک ساتھ مل کر بھی انہیں روکنے کی کوشش کریں تو نہیں روک پائیں گے۔
یہ بلوچ کی جو مزاحمت ہے اس میں ہر وقت آفتاب جنم لیتا رہے گا اور دشمن کی مورچوں میں گھس کر انہیں مارتا رہے گا۔ ہمارے نوجوانوں کی شہادت نے ہمارے حوصلے بلند کئے ہیں۔ ہمیں ذرا بھی افسوس نہیں بلکہ شہیدوں پر فخر ہے انہوں نے اپنی ذات کو پس پشت ڈال کر اپنی جانیں قربان کیں۔ ہمارے شہیدوں کی خون انقلاب کی صورت میں رونما ہوگا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں