بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4336 دن مکمل ہوگے۔ بالگتر سے طلباء کے ایک وفد نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
اس موقع پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنسز کے وائس چیرمین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے مخاطب ہو کر کہا کہ پاکستانی فورسز کی جانب سے بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین نوعیت کے خلاف ورزیاں اور ان پر علاقائی عالمی ذرائع ابلاغ سمیت تمام انسانی حقوق کے معتبر اداروں کی خاموشی بلوچستان میں ایک بہت بڑے انسانی المیہ کو جنم دے رہا ہے۔ اگر یہی بلوچستان مسلسل نذر انداز ہوتا گیا تو ان چشم پوشیوں سے پاکستانی قابض فورسز شے پاکر بلوچ نسل کشی میں مزید شدت لاکر بلوچستان کو ایک اور بوسنیا و کوسوو بنا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم تمام انسانیت دوست اور انسانی حقوق کے علم بردار اداروں کی توجہ بلوچستان میں جنم لینے والے ان سنگین انسانی المیوں پر مبذول کرانا چاہتے ہیں۔ اور خاص طور پر اقوام متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں ہونے والے سنگین خلاف ورزیوں کا نوٹس لیں۔
ماما قدیر کا کہنا تھا کہ ریاست پاکستان نے بلوچستان کے ساتھ کالونیل سلوک کو جاری رکھا، کوئٹہ چاونی میں برٹش دور کے بدنام زمانہ ٹارچر سیل قلی کیمپ میں بلوچ نیشنلسٹ رہنماؤں اور کارکنوں کو غائب کرنے اور تشدد کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔ قلی کیمپ میں تشدد کے دوران ہلاک ہونے والے کارکنان کی لاشیں بھی فیملی کی حوالے نہیں کی گئی اور انہیں نا معلوم مقام پر ویرانوں میں دفن کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں میڈیا کو کبھی بھی رسائی حاصل نہیں رہی جس کی وجہ سے پاکستان کے دیگر علاقوں اور صوبوں کے لوگوں کو بلوچستان کے عوام پر ہونے والے مظالم سے بے خبر رکھا گیا۔ اور سیاسی کارکنوں اور طلباء کے غائب کرنے کا سلسلہ ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کے دور شروع ہوا جو آج تک پورے ملک میں پھیلا ہوا ہیں۔ آج بلوچستان سمیت ملک بھر میں ہزاروں لوگ لاپتہ ہیں اور ظلم کی بات یہ ہے کہ ملک کے آئین قوانین بھی لاپتہ افراد کو تحفظ دینے میں مکمل ناکام ہو چکے ہیں۔ وائس فار مسنگ پرسنز سمجھتی ہے کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ اس وقت پورے ملک کی عوام کےلئے ایک ناسور بن گیا ہے لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ فوری طور پر ملک کی سطح پر مسنگ پرسنز کی فیمیلیز کو یکجاہ کر کے ایک کنوینشن بلا یا جائے، سیر حاصل بحث کرنے کے لئے سیاسی رہنماؤں، دانشور، صحافیوں، مسنگ پرسنز کے لئے کام کرنے والی تنظیموں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں سے سفارشات مرتب کرایا جائے اور لانگ ٹرم پالیسی بنانے کے لیے مسنگ پرسنسز تنظیموں پر مشتمل ایک جوائنٹ کمیٹی تشکیل دی جائے۔