تربت :گہرام نادل کی حراستی قتل کا تحقیقات کیا جائے، ایچ آر سی پی

255

 

تربت سول سوسائٹی اور ایچ آر سی پی مکران نے تمپ میں گھرام نادل کی دوران حراست شھادت واقعہ کی انکوائری اور ملوث اہلکاروں کے خلاف تحقیقات اور گھرام نادل کے ہمراہ لاپتہ کیے گئے تین نوجوانوں کی باحفاظت فوری بازیاب کا مطالبہ کردیا-

تربت پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سول سوسائٹی کے کنوینئر گلزار اور ایچ آر سی پی کے ریجنل کوارڈینیٹر پروفیسر غنی پرواز نے کہاکہ 12جون کو تمپ کونشقلات سے چار نوجوانوں کو جن میں گھرام ولد نادل، عبدالستار ولد الہی بخش، سھراب ولد رحیم بخش، عبداللہ ولد ماسٹر حسن شامل تھے جن کو ایف سی نے رات چار بجے گھر سے اٹھایا اور 15 جون کو بدتریں تشدد کے بعد گھرام ولد نادل کو شھید کرکے ان کی لاش وصول کرنے کیلئے ان کے اہل خانہ کو فون کیا لیکن انکے اہلخانہ نے لاش وصول کرنے سے انکار کیا بعد ازاں علاقائی معتبرین اور ان کے ہمسائیوں کو فون کرکے لاش وصول کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا مگر کوئی شخص بشمول خاندان لاش وصول کرنے پر راضی نہ ہوا جسے بعد میں پولیس کے زریعے زبردستی ورثاء کے حوالے کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ کسی بھی شخص کو بلاوجہ گھر سے اٹھاکر لاپتہ کرنا یا دوران حراست تشدد کرکے قتل کرنا یہ عمل آئین پاکستان کی نہ صرف خلاف ورزی ہے بلکہ اقوام متحدہ، انسانی حقوق کا عالمی چارٹر اور عالمی عدالت انصاف بھی اس کی اجازت نہیں دیتے ہیں-

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں 2001 سے نوجوانوں کو خصوصاً اغواء اور عام لوگوں کو عموماً اغواء کرکے لاپتہ کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ایک اندازہ کے مطابق ہزاروں بلوچ اس وقت لاپتہ اور ہزاروں کو قتل کرکے مسخ لاش کی صورت پھینکا گیا۔

پہلے اغوا کرکے لاشیں مسخ کرکے پھینک دیے جاتے تھے اب ایک نیا سلسلہ شروع کیا گیا ہے جوسراسر زیادتی ہے اس عمل سمیت جبری لاپتہ کرنے کا سلسلہ فوری بند کرنا چاہیے-

گوادر سے بھی یاسرحاجی حمید اور دیگر نوجوانوں کو اٹھا لیا گیا ہے جوکہ طالبعلم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آئین کے مطابق کسی شخص کے وارنٹ نکال کر پولیس یا لیویز گرفتار کرنے کا مجاز ہے اور اس شخص کو 24 گھنٹوں کے دوران کھلی عدالت میں پیش کرنے کا پولیس یا لیویز پابند ہے مگر یہاں معاملہ اور ہے لوگوں کو رات کی تاریکی میں اٹھایا جاتا ہے اور ماوراء آئین وقانون تشدد کانشانہ بنایا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایف سی کا کام سرحدوں کی حفاظت کرناہے جبکہ یہاں ایف سی کو آبادیوں میں لاکر بسایاگیاہے جو لوگوں کو گرفتار اور تشدد کرکے انہیں اذیت دیتےہیں ایف سی کو ہرگز یہ اجازت نہیں کہ سیکیورٹی کے نام پر علاقے میں اپنی زمہ داریوں سے ہٹ کر غیر انسانی کاموں میں ملوث رہے، جس سے وہ سخت بدنام ہے –

انہوں نے کہا کہ نوجوان طالبعلم حیات مرزا بلوچ کا واقعہ ہو یاپھر امیر مراد کا واقعہ یہ ایف سی کے کردار پر داغ ہیں-

انہوں نے وفاق اور صوبائی حکومت سے مطالبہ ہے کہ فورسز کو آبادیوں سے نکال کر سرحدوں پر بھیجا جائے کیونکہ کسی بھی قانون میں شہروں کے اندر فوج کو آباد نہیں کیاجاتا، یہ آئین پاکستان کی بھی خلاف ورزی ہے عالمی انسانی حقوق اور اقوام متحدہ سمیت کسی بھی ادارے اور قانون میں اسکی اجازت نہیں ہے۔

تربت سول سوسائٹی کے کنوینر گلزار دوست نے کہا کہ تمپ سے گھرام ولد نادل کا دوران حراست قتل انسانی المیہ ہے ان کے ساتھ گرفتار دیگر تین نوجوانوں کی زندگیوں کے بارے میں ہمیں شدید تشویش لاحق ہیں ہمارا مطالبہ ہے کہ اس واقعہ کی غیر جانبدارانہ تحقیق کرکے گھرام کے ساتھ گرفتار کیے گئے تینون نوجوانوں کو فورا بازیاب کیا جائے اور کسی بھی شخص کو آئندہ محض شک کی بنیاد پر گرفتار کرکے ان پر تشدد یا قتل کرنے کا طریقہ بند کیا جائے-

انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی فورسز یا ایف سی کا کام عوام کے جان و مال کا تحفظ کرنا ہے یہ ان کو آئین نے اختیار دیا ہے لیکن بدقسمتی سے سیکیورٹی ادارے آئین کو پاؤں تلے روندھ کر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں اور انہیں روکنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ گھرام ولد نادل کے خاندان کو انصاف فراہم کرنے کے لیے ہر ممکن تعاون کو تیار ہیں۔