طلباء اور طالبات کی بڑی تعداد نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا کر شہر کے اہم سڑکوں پر مارچ کرتے ہوئے یونیورسٹی کا مطالبہ کیا –
اس احتجاجی ریلی میں گوادر کے طلباء تنظیموں کے علاوہ سول سوسائٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی –
ریلی شرکاء نے یونیورسٹی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی گوادر کا بنیادی حق ہے اور ہم اس کے لیے سراپا احتجاج ہیں –
انہوں نے کہا کہ ترقی کے اس شور میں گوادر کے لوگ اپنے بنیادی حقوق سے محروم رکھے گئے ہیں جو یہاں کے لوگوں کو اب منظور نہیں ہے –
ریلی میں شریک ڈگری کالج گوادر کے طالب علم الطاف بلوچ نے دی بلوچستان پوسٹ کو بتایا کہ گوادر یونیورسٹی کی منظوری چار سے پہلے ہوچکا تھا مگر موجودہ صوبائی حکومت گوادر میں یونیورسٹی کا مخالفت کررہا ہے –
انہوں نے کہا کہ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہمیں پسماندہ رکھ کر یہاں اپنے منصوبوں کی تکمیل کے بعد مقامی آبادی کو شہر بدر کا ارادہ رکھتے ہیں –
انہوں نے کہا کہ لوگ اب باشعور ہوچکے ہیں آج اتنی بڑی تعداد میں طلباء کا باہر نکلنا کامیابی تصور کرتا ہوں کہ لوگ اب اپنے حق کے لیے بولنا جانتے ہیں –
ریلی کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ ہم اس ترقی کو مسترد کرتے ہیں جہاں تعلیمی ادارے نہیں ہوں، جہاں ہمارے مستقبل اندھیرے میں ہوں اور ترقی کے اس دعویٰ میں ایک یونیورسٹی تک نہیں ہے –
انہوں نے کہا کہ ہم پچھلے 20 سالوں سے یہاں ترقی کے راب الاپتے حکمرانوں کو سن رہے ہیں لیکن یہ ترقی نہیں استحصال ہے –
دریں اثنا گوادر سے تعلق رکھنے والے سینیٹر کہدہ بابر نے گوادر یونیورسٹی کے عدم قیام پر سینیٹ میں احتجاج کرتے ہوئے یونیورسٹی قیام کا مطالبہ کیا –
کہدہ بابر نے گوادر کو یونیورسٹی دو کا نعرہ لگاتے ہوئے بجٹ اجلاس سے واک آؤٹ کیا، جبکہ اپوزیشن اراکین نے کہدہ بابر کے ساتھ احتجاج کرتے ہوئے واک آؤٹ کیا –
جبکہ اس سے پہلے گوادر لسبیلہ سے منتخب پاکستان اسمبلی کے رکن اسلم بھوتانی نے کہا تھا کہ گوادر یونیورسٹی میں سب سے بڑا رکاوٹ جام حکومت ہے اور انہوں نے فنڈز روک دیے ہیں –