بلوچستان اور طلباء سیاست – اسد ستوریانی

200

بلوچستان اور طلباء سیاست

تحریر: اسد ستوریانی

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان ایک ایسا خطّہ ہے جہاں سیاست کو مُشکِل سے مُشکِل تر کیا جارہا ہے ۔یہاں طلباء کو سیاست سے دور رکھنے کی کوششیں کیے جارہے ہیں۔مگر یہ بلوچستان کے ہوا کا اثر ہے کہ پھر بھی لوگ سیاست کو امامت مانتے ہیں ۔یہاں پر بار بار ریاست کی طرف سے سیاست کو روکنے کے فیصلے کئے جارہے ہیں۔ طلباء تنظیموں پے ناروا فیصلے حکم کی شکل میں لاگو کرتے ہیں۔ جیسے کے سرکلوں پے پابندی ۔طلباء سیاست کے لیے حال نہ دینا اور طلباء یونین پے پابندی ایک غیر روایتی اقدام ہے۔ایسے اقدامات سے طلباء کے ذہنوں میں سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ کیا ہم کسی غلط کام کی طرف تونہیں جا رہیں۔مگر جب سوچ میں شعور آتا ہے تو سمجھ آتی ہے اور یہ پتہ چلتا ہے کہ ریاست ہمارے شعور سے خوفزدہ ہے۔ یہ خوف کے پھر طلباء فیصلوں پے سوال اٹھائینگے انکی غیر ضروری فیصلوں پے مذمت کرینگے۔

یہ ریاست شاید بھول چکی ہے کہ سیاست ہی سے ملک کی ترقی جڑی ہے ۔سیاست ہی طلباء میں سے نگینے چنتی ہے۔ یہی سیاست جینے کا ہنر سکھاتی ہے۔ یہی سیاست با کردار شخصیات کو جنم دیتی ہے ۔ یہی سیاست غلط اور صحیح میں فرق دکھاتی ہے۔ انہی شخصیات کی مثالیں ہمارے پاس موجود ہیں۔ لیڈروں کی شکل میں شہیدوں کی شکل میں اور کامریڈوں کی شکل میں۔اگر اسی طرح ریاست کی سیاست میں لوگ آسمانوں سے آئینگے تو ہال یہی ہوگا جو اس وقت اس ریاست کا ہے۔

ہماری سیاست کو پروان چڑھانے کے لیے ہم سب کو ایک ہونا ہوگا۔ اپنے رنگی تعصّب کو بھلا کے، قومی تعصّب کو بھلا کے،نسلی تعصّب کو بھلا کے ،مذہبی تعصب کو بھلا کے ۔ ہم سب کو ایک صف میں کھڑا ہونا پڑے گا۔اختلاف ہوتا ہے ہر شخص کا دوسرے شخص سے۔نظریاتی اختلاف،سیاسی اختلاف۔ اختلاف کسی کے کردار سے اختلاف کسی کے عمل سے۔ مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کے ہماری منزل جدا ہے۔ہم سب کی ایک ہی خواہش ہے ایک ہی منزل ہے وہ یہ کے ہمارے پیارے بلوچستان کے عوام کو جینے کی آزادی ہو پڑھنے کی آزادی ہو اپنے ساحل وسائل کو خود کے لیے استعمال کرنے کی آزادی ہو  یہاں کسی ظالم کی مجال نہ ہو ہماری عوام پے ظلم کرنے کی ۔تبھی ہم اپنے ملک کی حفاظت کر پائینگے۔اپنے عوام کو اُنکا حق دلا پائینگے۔اور اپنے نگینوں کو تراش پائینگے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں