بشیر زیب بلوچ قوم کیلئے مشعل راہ -تحریرکوہ زاد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
قوموں کی ارتقاء و ترقی علم، شعور اور روشن خیالی کے بدولت آتی ہے۔ انسانی تاریخ میں انسان کو مختلف ادوار اور مراحل سے گزرنا پڑا ہے جن کو ان کے متعلقہ صورتحال کے مطابق مختلف ناموں سے موسوم کئےگئے ہیں جیسے کہ فرعون کا زمانہ، رومن سامراجی دور، عرب جاہلیت کا زمانہ، اسلامی روشن خیالی کا زمانہ، سیاہ عمر یا نصف صدی، (Renaissance)، پھر سامراجی ادوار، انقلاب فرانس کے مختلف مراحل کا زمان، جس کے عین وقت برطانوی، اسپین، روس پرتگال اور دوسرے چند سامراجی قوتوں کے سامراجیت کا زمانہ وغیرہ۔ اگر ہم ان ادوار کے بارے میں تحقیق و مطالعہ کریں تو ہر اس دور میں ہمیں ایسے شخصیات ملیں گے جو اپنے اپنے قوم کیلئے ان کو درپیش کسی طرح کے بھی حالات، نظام یا صورتحال کے بارے میں روشن خیالی کا سبب بن کر ان کی ارتقاء و ترقی، بہتری و خوشحالی یا آذادی کیلئے مشعل راہ بنی تھیں۔
قدرت بھی ہر قوم میں چند ایسے شخصیات پیدا کرتا ہے تاکہ وہ اپنے قوم کیلئے مشعل راہ ہوں۔ اپنے قوم کو تاریکی اور زوال سے نکال کر ترقی و روشنی میں دھکیلنے کا سبب بنیں۔ اس کی پہچان، وجود حیثیت، اور مقصد سے آشنا کرنے کا ذریعہ ہوں۔ انسانی تاریخ میں(مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق) قدرت نے گزرے ہوئے ہر قوم پر نبی و رسول بھیجے تھے تاکہ ان کو ان کا مقصد دکھائیں۔ جینے کا مقصد، ظلم و جبر کی زندگیوں سے نکلنے کا مقصد، زیادتیوں اور ناانصافیوں میں مبتلا زندگیوں سے آزادی کا مقصد۔ ان پر بہت سے لوگ قائل ہو کر ان کے پیروکار بنتے تھے کیونکہ ان کو اپنے اپنے نبی یا رسول کی صداقت کا احساس ہوکر ان کے تعلیمات، ہدایات کردار اور کارناموں پر بھروسہ ہوتا تھا۔
اسی طرح، نبی کریم صلی کو بھی اللہ تعالی نے اہل زمین کیلئے رسول بنا کر بھیجا تھا تاکہ وہ ان کو اصل مقصد کے بارے میں روشن خیال کرے، ان کو گمراہی سے نکال کر سچ اور حق کے راستے پر چلنے کی ہدایت، تعلیم اور سبق دے۔ آپ صلی کے وجود کا مقصد تو پورے اہل زمین کیلئے تھا، لیکن ویسے ہی ہر قوم میں قدرت چند شخصیات پیدا کرتا ہے تاکہ وہ اپنے قوم کو ان کے قومی، اجتماعی یا جینے کے اصل مقصد کے بارے میں شعور و آگاہی دے یا روشن خیالی کا سبب بنیں، تاکہ وہ قوم گمراہی سے، تاریکی سے، کسی کے ظلم و ستم اور ذیادتیوں سے، کسی کے قبضے و قابو سے، کسی کے ناجائز مسلط کردہ نظام اور حالات سے یا کسی سامراجی و استعماری نظام و صورتحال سے نکل آئے۔
ایسے سینکڑوں شخصیات کی مثالیں ملیں گی جو اپنے قوم کیلئے، اپنے لوگوں کےلئے، یا دوسرے انسانوں کیلئے ان کے مختلف مقاصد میں یا مذکورہ بالا جیسے صورتحال سے بچنے، نکلنے یا نجات پانے کےلئے نظریاتی طور پر مشعل راہ اور ذریعہ بنی تھیں اور ہیں، جن میں ایک محمد رسول اللہ صلی خود ہیں جو کروڑوں لوگوں کےلئے ایک رول ماڈل ہیں کیونکہ آپ کی سیرت کا اب بھی لوگ صحیح مطالعہ کرتے ہیں تو اپنے جینے اور وجود کا مقصد سمجھتے ہیں۔ جن کو لوگ اپنے مذکورہ مقاصد میں ایک نظریہ، مشعل راہ اور رول ماڈل مانتے ہیں۔ آپ کے حیات کے زمانے میں بھی لوگ آپ کو دیکھ کر، آپ کے بارے میں سن کر یا مطالعہ کرکے نہ صرف اپنے جینے اور وجود کا مقصد سمجھتے تھے بلکہ ہر جیسے حالات اور نظام سے بھی بخوبی واقف اور آگاہ رہتے تھے اور ان سے نپٹنے کےلئے آپ صلی کے طریقوں اور تعلیمات کے مطابق چلتے تھے کیونکہ انہیں آپ پر پورا یقین تھا کہ آپ ہر جیسے حالات سے بخوبی واقفیت، شعور اور شناسائی رکھتے ہیں۔
اس کے علاوہ، محمد صلی کے زمانے کے بعد کے جو مثالی شخصیات ہیں جنہوں نے نظریاتی اور عملی طور پر اپنے قومی، اجتماعی یا دوسرے انسانی درست و معقول مقاصد کےلئے برسرپیکار رہتی تھیں، ان میں فرانسیسی انقلاب میں والٹئیر، مونٹیسکی اور جین جیک روسو، فرنچ نوآبادی مارٹنیک کے ماہر نفسیات فلسفی مصنف اور اینٹی سامراجیت فرانٹز فینن، ایمی سیسیائر، البرٹ ایمی، جرمن ماہر اقتصادیات مورخ فلسفی اور سوشلسٹ انقلابی کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز، ہندوستان کی انقلابی بھگت سنگھ، گاندھی جی جیسے چند دوسرے، اور بہت ہی معروف کامریڈز آرنیسٹو ‘چی گویرا’ اور فیڈل کاسترو کے نام سرفہرست آتے ہیں۔ ان جیسوں نے اگر اہل زمین کیلئے نہیں تو اپنے قوم، اپنے لوگوں یا دوسرے متاثرہ انسانوں کیلئے نہ صرف ان کی حیات نو، روشن خیالی اور ابھرنے کےلئے عملی اور نظریاتی طور پر برسرپیکار رہتی تھیں بلکہ ان کے نظریے اور کردار آج بھی قوموں کی بہتری، خوشحالی، اور آذادی جیسے مثبت صورتحال کا ذریعہ بنتی آرہی ہیں۔
اسی طرح اگر ہم بلوچ قوم کی بات کریں یا بلوچ قومی مقصد کی بات کریں تو بلوچ قوم کو جس حالات اور نظام میں جکڑا ہوا ہے، جس پر جو نظام اور حالات مسلط کئے گئے ہیں ان کے بارے میں 73 سالوں سے اب تک پچاس فیصد بلوچ الجھن میں نظر آتے ہیں۔ وہ ابھی تک (بلوچ) پر مسلط سامراجی و استعماری نظام، حالات، حربوں اور ہتھکنڈے کو حقیقت اور باطل سمجھنے کی کشمکش میں ہیں۔ بقول کامریڈ بشیر زیب “سب کچھ واضح ہے۔ اگر کوئی نہیں دیکھ رہا تو وہ اندھا ہوگا، وہ گونگا ہوگا، وہ لالچ اور بزدلی کا شکار ہوگا، وہ خوفزدہ ہوگا یا اس لعنت زدہ آرام زندگی کو چھوڑنے سے قاصر ہوگا۔” اگر کچھ لوگ واقعی اس حقیقت کو سچ و باطل جاننے کی کشمکش اور الجھن میں ہیں تو وہ اس الجھن اور کشمکش سے نکلنے کیلئے وہ کتاب و نسخہ، علم، شعور، آگاہی، راستہ اور اس سے روشن خیالی کا ذریعہ کیوں نہیں اپنانے کی کوشش کرتے؟
جی ہاں، ہمیں(بلوچ قوم کو) درپیش حالات، نظام اور جیسی بھی صورتحال جو ہم پر مسلط کرتے آرہے ہیں، کی حقیقت سے آشنا اور روشن خیال ہونے کا راستہ، ذریعہ، کتاب و نسخہ، علم و شعور اور آگاہی کامریڈ بشیر زیب ہیں جو ہمارے قومی اصل مقصد، بلوچستان اور بلوچ قوم میں پیدا کردہ حقیقی حالات اور نظام، بلوچ قوم کی اجتماعی مسئلہ اور ان سے نجات و آذادی دلانے کے بارے میں دریا سے بھی گہرا اور وسیع علم، زانت، شعور اور صلاحیت رکھتی ہے۔
کامریڈ بشیر زیب وہ ہیں جس کو سمجھنے کے ساتھ پڑھ کر یا مطالعہ کر کے نہ صرف خود کے اوپر ہر قسم کے حالات، نظام، نفسیاتی کیفیات اور صورتحال کے بارے میں ذرہ ذرہ علم شعور اور جانکاری ہو سکتی ہے بلکہ خود کو آئینے کے سامنے کھڑے اپنے ہر عمل اور صورت کی عکاسی محسوس ہوتا ہے۔
بشیر زیب ایک فلسفہ ہے۔
بلوچ قوم کے حالات کے عکاسی کا فلسفہ
اس کو مطالعہ کرنے کے بعد خود کو جاننے کا فلسفہ
اپنے قومی مقصد کو جاننے کا فلسفہ
اپنے وجود اور پہچان کو جاننے کا فلسفہ
بشیر زیب بلوچ قوم کیلئے وہ ہستی ہے جسے کھونے کے بعد ہم (بلوچ قوم) کیلئے سب سے بڑی بد بختی، بد نصیبی اور شومی ہوگی۔
بشیر زیب وہ شخص ہیں جن کو استاد جنرل اسلم (جو بشیر زیب سے بلوچ قومی کاز و مقصد کے بارے میں شعور آگاہی اور تجربہ رکھنے میں کم نہیں تھا، جس کا اپنا الگ ایک ایسا مقام، معیار، کردار اور حیثیت ہے جس کے بارے میں اگر ذکر و بیان کیا جائے تو الفاظ پورے نہیں اتریں گے اور نہ انصاف کریں گے) جیسا عظیم شخص اور لیڈر کسی ادارے کی پوری زمہ داریاں دینے میں متذبذب اور بے اعتناء نہیں ہوئے۔ جن کی صلاحیت اور زانت پر استاد اسلم جیسے شخص نے بھروسہ کرکے اپنے نظریے و فکر کی وجود کو برقرار رکھنے کا زمہ سونپا۔
بشیر زیب بلوچ قوم کیلئے ایک رول ماڈل ہیں۔ جیسے اہل مسلمان کیلئے محمد رسول اللہ صلی ہیں، کیونکہ آپ ص کا کردار ہی اپنے مقصد کے بارے میں اتنی مخلص، سچا اور مثبت تھی کہ اس کے پیروکار تہہ دل سے اس کے نقش قدم پر چلتے نظر آتے رہے ہیں کیونکہ آپ کے بارے میں ان لوگوں نے غور و توجہ سے سنا ہے، پڑھا ہے، مطالعہ کیا ہے۔
اسی طرح، سامراج مخالفین کےلئے چی گویرا آج ایک معروف شخصیت اور رول ماڈل ہیں، جس کی ہر انداز کی اس کے چاہتے اور پیروکار نقل کرتے ہیں کیونکہ وہ اس کے نظریات، افکار، اعمال، کردار اور سامراجوں کے خلاف مخلص کارناموں کی صداقت پر یقین رکھتے ہیں۔
بلوچ قوم یا لوگوں کی یہ سب سے بڑی بد بختی اور کمزوری ہے کہ وہ یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے کہ ان کے حقیقی لیڈروں اور مخلص شخصیات میں کس حد تک اپنے لوگوں کےلئے ہمدردی، فکر مندی اور ان کے قومی و اجتماعی مقصد کے حصول کیلئے کتنے اہل اور مخلص ہیں۔
بشیر زیب بلوچ قومی و اجتماعی کاز و مقصد کے متعلق، بلوچ قوم پر مسلط حالات اور نظام کے متعلق، بلوچ قوم کے اصل مرض کے علاج کے متعلق، بلوچ قوم کو خود کو پہچاننے، اپنے دشمن کو پہچاننے اور دشمن کے بلوچ قوم کے خلاف حربوں، منصوبوں، ہتھکنڈے اور حکمت عملیوں کے متعلق ایک حقیقت پر مبنی کتاب ہے۔ لہذا، اس کتاب کو پڑھنے کی کوشش کریں، اس کو سننے کی کوشش کریں، اس کو مطالعہ کرنے کی کوشش کریں، اس کو سمجھنے کی کوشش کریں جس کو سمجھ کر نہ صرف خود کے بارے میں، خود کو درپیش حالات، مشکلات، نظام اور اپنے اجتماعی مقصد کے بارے میں علم، شعور اور آگاہی ہوگا بلکہ ان سے نجات، آذادی و چھٹکارا حاصل کرنے کا واحد راستہ و ذریعہ سمجھ میں آجائے گا۔
کامریڈ بشیر زیب بلوچ قومی تحریک آذادی، خاص طور پر بی ایل اے کے وجود کو ایک منظم اور مستحکم انداز میں برقرار رکھنے کےلئے ایک بہت بڑی امید ہے۔ ہمیں بہت خدشہ و ڈر رہتا ہے کہ کہیں خدانخواستہ کامریڈ بشیر زیب کو کچھ ہو جائے تو آیا دوسرے زمہ دار ساتھیوں میں آپ جیسی سنجیدگی، مخلصی، ایمانداری، اہلیت و صلاحیت، قوت مدافعت، فکر مندی، تحریک یا بی ایل اے کو نظم و ضبط کے توازن میں قائم و برقرار رکھنے کا عزم ہوگا۔
بشیر زیب کیلئے نہ صرف میں دعا کرتا ہوں بلکہ میں ان تمام بلوچ ماوں، بہنوں اور مردوں جو بلوچ تحریک آذادی کا حصہ ہیں، حامی ہیں یا غیرجانبدار ہیں سے دعاوں کی اپیل کرتا ہوں کہ اللہ پاک ان کو ہمیشہ سلامت و تندرست، استحکام، ایسے ہی مستقل مزاج اور ثابت قدم اور مقصد کے حصول تک ضرور زندہ رکھے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں