آواران کو تعلیم دو – زرینہ بلوچ

150

آواران کو تعلیم دو

تحریر: زرینہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

‏تعلیم عربی زبان کا لفظ ہے علم سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے کسی چیز کوجاننا ،پہچاننا ہے۔

تعلیم وہ شے ہے جس کی وجہ سے انسان میں شعور اور عقل آتا ہے تعلیم و علم کی وجہ سے غیر مہذب قوموں میں شعور عقل اور تہذیب آئی ہے ۔تعلیم کی وجہ سے انسان نے اتنی بڑی ترقی کی ہے کہ ہر چیز میں آسانی پیدا ہوئی ہے اگر ہم جدید ٹیکنالوجی اور گلوبلائزیشن کو لیں ایک ملک سے دوسرے ممالک کے رہنے والے لوگ با آسانی سے دوسروں کو ویڈیو کال میں دیکھ سکتے ہیں۔ تعلیم اور شعور کی وجہ سے انسان نے بہت ترقی کی ہے ۔ لیکن بلوچستان وہ بدبخت صوبہ ہے جہاں شوق سے تعلیم حاصل کرنے والے بہت ہیں لیکن تعلیمی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے بہت سارے شہروں میں اسکول بند پڑے ہیں۔ بلوچستان کے علاقے آواران آج کے دور میں بھی بنیادی تعلیمی سہولیات سے محروم ہیں۔

آواران رقبے کے لحاظ سے بلوچستان کا تیسرا بڑا ضلع ہے۔ جو لسبیلہ اور مکران کے درمیان میں واقع ہے۔جہاں پر تعلیمی نظام درہم برہم ہے۔اسکول کے بلڈنگ آواران میں موجود ہیں لیکن بد قسمتی سے وہاں ٹیچروں کی کمی کی وجہ سے زیادہ تر اسکول بند پڑے ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔

ضلع آواران میں 381 اسکول ہیں ۔اور اسکول کیلئے 1527 اساتذہ کی منظور شدہ اسامیوں میں سے 670 اساتذہ کو ڈیوٹی پر رکھا گیا اور 857 آسامیاں خالی ہیں۔ آسامیاں خالی ہونے کی وجہ سے 156 اسکول بند ہیں۔اور کچھ اساتذہ صرف تنخواہ لے رہے ہیں۔ اپنا ڈیوٹی ٹھیک طریقے سے سرانجام نہیں دے رہے ہیں۔

آواران کی تعلیمی صورت حال دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں کے حکمران اور آواران کے رہنے والوں کی خاموشی کی وجہ سے بچوں کی تعلیم اور مسقبل برباد ہو رہی ہے لیکن کسی کو فرق نہیں پڑ تا ہے نا عوام ہمت کر رہی ہے نہ حکمران کچھ کرتے ہیں۔

حکمرانوں کی خاموشی سمجھ میں آتی ہے کیونکہ انکے بچے باہر پڑھنے جا سکتے ہیں لیکن غریب عوام کی خاموشی سمجھ سے باہر ہے کیونکہ ان سب کے بچے تو باہر پڑھنے جا نہیں سکتے۔سب کو ملکر آواز اُٹھانا چاہئے تاکہ آواران کے بچے اور بچیاں بھی تعلیم حاصل کر سکیں اور آگے بڑھ سکیں آواران کے بچوں کا مستقبل بھی روشن ہونا چاہیے ۔آواران کو بھی ترقی دینا چاہیے آواران رقبے کے لحاظ سے بڑا ضلع ہے لیکن ترقی کے لحاظ سے آج بھی پیچھے ہے ۔تعلیم کے بغیر آج تک کسی قوم نے ترقی نہیں کی۔ سارے طلباء کراچی، کوئٹہ،اسلام آباد، لاہور میں پڑھنے نہیں جاسکتے ہیں سب کے گھر والوں کی آمدنی اتنی نہیں ہے کہ بچوں کو باہر پڑھنے بھیج دیں۔اگر آواران کی تعلیم صورت حال ٹھیک ہوگی تو سب کو علم و تعلیم کا موقع حاصل ہوگا۔

اگر ہم سب ابھی ہمت کرکے آواز اُٹھائیں بہت سے بچوں کا مستقبل برباد ہونے سے بچ سکتا ہے شہر کے تمام بچے اور بچیاں اسکول میں نظر آ سکتے ہیں نا کہ گلیوں میں۔

یہ مسئلہ صرف آواران کا نہیں ہے یہ مسئلہ پورے بلوچستان کا ہے۔ بلوچستان میں بہت سے ایسے شہر ہیں جو تعلیم سے محروم ہیں لیکن کوئی سُنے والا نہیں ہیں۔

میں بلوچستان کے حکمرانوں سے اپیل کرتی ہوں کہ آواران کے تعلیمی نظام کو بہتر بنائیں اور بچوں کا مستقبل بچائیں اگر تعلیم کا نظام ٹھیک ہوگا تب ہی آواران اور پورا بلوچستان ترقی کر سکتا ہے بچوں کا مستقبل روشن ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں