آفتاب بلوچ، بہادری اور جرت کی علامت – نوشاد کھیتران بلوچ

672

آفتاب بلوچ، بہادری اور جرت کی علامت

تحریر: نوشاد کھیتران بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آج میں جس شخص کے بارے میں بتانے کی جسارت کررہا ہوں وہ ایک ایسی ہستی ہے، جو کسی تعارف کا محتاج نہیں کیونکہ پھولوں کو کبھی عطر نہیں لگایا جاتا۔

اگر آپ نے اچھے اخلاق اور اعلیٰ میعار کے ساتھ ایک بہترین طرز حیات پر مبنی زندگی گزار لی تو یقین کیجیے اس دنیا سے جا کر بھی زندہ رہیں گے، کیونکہ وہ تمام اشخاص جن سے آپ کا کبھی نا کبھی واسطہ رہا ہو گا، وہ آپ کو اچھے الفاظ میں یاد کریں گے اور یہی الفاظ آپ کا سرمایہ حیات ہیں، ویسے بھی اس فانی دنیا سے جانا تو ایک نا ایک دن ہے ہی تو کیوں نا اپنے حق کا دیا جلایا جائے اور ایسی زندگی گزاری جائے جو با مقصد ھو جو دوسروں کے لیے مثال بن جائے۔

شہید آفتاب بلوچ بھی ایسی ہی چیدہ شخصیات میں سے ایک تھے، شھیدافتاب نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں زہری (خضدار)سے حاصل کی پھر آپ سرگودھا چلے گۓ، وہاں سے میٹرک تک تعلیم حاصل کی پھر لاہور میں انٹر میڈٹ کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ راولپنڈی میں شعبہ معاشیات کی تعلیم حاصل کرنے گۓ، آفتاب بلوچ اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ بلوچ قوم اور بلوچستان کے بارے میں بھی فکر مند تھے۔ شہید افتاب نے بلوچستان میں تعلیم کے فروغ اور شعوری فکر کو پروان چڑھانے کے غرض سے اپنے آبائی علاقے (زہری، خضدار) میں لائبریری اور کتاب کلچر کو عام کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ افتاب بلوچ چونکہ ایک باشعور نوجوان تھا وہ بلوچ نیشنلسٹ ھونے کے ساتھ انسانیت کا بہت بڑا علمبردار تھا یقیناً یہ اسکی شعوری تربیت کی عکاسی ھے چونکہ بلوچ نیشنلزم کی بنیاد ہی انسانیت ھے۔

شہید افتاب بلوچ جب بھی بلوچستان میں کی جانے والی ناانصافی، ظلم، زیادتی جبر، گمشدگی کا سنتے تو وہ سب سے الگ اکیلے جا کر بہت دیر تک رونے لگتے یقینا یہ اسکے دل و دماغ میں اپنی گلزمین اور اپنے لوگوں کی محبت تھی، جو اسے بے بسی کے عالم میں رونے پر مجبور کرتی تھی۔

مگر وہ بلوچ قوم کا فرزند تھا، بےبسی میں رونے کے بجائے اپنے آباء و اجداد اور کئی شعور یافتہ نوجوانوں کے راستے پر چل پڑا اور اپنی گلزمین کے عشق میں سر باکفن ھوگیا، اور 31 مئ 2021 کو بولان میں دوارن ڈیوٹی فرنٹ لائن پر جرت مندانہ خدمات انجام دیتے ھوئے آفتاب اپنی گلزمین کے عشق میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امر ہوگئے اور بولان کو اپنی آخری آرام گاہ بنا کر یہ ثابت کر دیا کہ اگر عشق سچا ھو تو بولان اپنے سینے میں جگہ ضرور دیے گا، یقینا ایک زمین زادے کے لئے بولان میں دفن ھونا کسی اعزاز سے کم نہیں کیونکہ جب تک
بولان ارے
بلوچستان ارے

شہید آفتاب بلوچ بھی باقی زمین زادوں کی طرح اپنے پیچھے ایک بے مثال زندگی چھوڑ گئے، جو قدم قدم پر بحیثیت دوست اور بلوچ ہمارا سرفخرسے بلند کر دیتی ھے، صرف ہم (بلوچ) ہی نہیں بلکہ زمانہ بھی ان کی مثال دیتا ہے چونکہ وہ سب کے ساتھ اچھے تھے تو کوئی کہتا ہے کہ اگر آفتاب نہ ہوتا تو آج میں اس مقام پر نہ ہوتا تو کوئی کہتا ہے کہ آفتاب بلوچ کی ذات ہی تھی جنہوں نے زندگی کے ہر موقع پر بلا غرض و غایت میری مدد کی۔ کیا اپنے کیا پرائے ہر شخص ان کی تعریف کرتا نظر آتا ہے، وہ تھے بھی ایسے، اخلاص ان کی شخصیت میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، تحمل، بردباری اور برداشت ان کا خاصہ تھے، نرم و شفیق لہجہ، صلح جو طبیعت، حسن اخلاق، زندہ دلی اور دور اندیشی و دانائی ، رعب اتنا تھا کہ بلوچ کے علاوہ باقی قوم کے لڑکے لڑ کیاں بھی ان کی عزت کرتی تھی ایک بار حکم دیتے تو چوں چراں کرنے کی کسی کو مجال نہ ہوتی۔ شفیق اتنے کہ کبھی کبھار ہمیں بھی لگتا کہ وہ ہمارے دوست نہیں بلکہ ہمارے بڑے بھائی ہیں، یقینا یہ اسکی اعلی کردار اور پختگی کی تھی جس نےاسکو آفتاب سے بلوچستان کا افتاب بنایا۔

کیا وجہ ہے کہ بلوچستان کا پڑھا لکھا نوجوان آفتاب ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھا رہا ہے؟ یقیناً جب بلوچستان کے نظرانداز اور پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان تعلیم حاصل کرنے کے لئے اسلام آباد ، لاہور اور کراچی آتے ہیں تو ، طرز زندگی میں فرق واضح طور پر نظر آتا ھے ایک شعور یافتہ بلوچ کبھی اس بات کو فراموش نہیں کر سکتا کہ بلوچستان کو لوٹ کر ادھر ترقی کے مینار بنائے جارہے ہیں اور بدلے میں بلوچ قوم کو لاپتائی و لاشیں تو وہ کیوں نہ لڑے؟ اسکی تعلیم و شعور کہتا ھے لڑو۔ 70 سالوں سے بلوچستان کو لوٹ مار لاپتہ اور لاشوں کے سوا ملا ہی کیا ھے؟ جب سے میں نے ہوش سنبھالا بلوچستان کی ترقی کے لئے عظیم الشان ترقیاتی پیکجوں کے بارے میں سنتا آرہا ھوں ، کبھی مشرف حکومت ، پھر پی پی پی ، پی ایم ایل ، اور اب پی ٹی آئی سے مجھے حیرت ہے کہ اربوں روپے کے فنڈ کہاں جاتے ہیں؟ ایک باشعور شخص کو اچھے سے اندازہ ھے کہ یہ لاپتہ کرنے لاشیں پھینکنے اور غریب بلوچ کے گھروں کی لوٹ مار میں خرچ ھوتے ہیں۔ تو پھر ظاہر ھے ایک تعلیم یافتہ شعور یافتہ ہی لڑے گا نہ کہ لاشعوری کی زندگی گزارنے والا، تو یہ حیرت کی بات نہیں ھے۔

یہ سطور لکھنے کا مقصد صرف آفتاب کی تعریف کرنا یا ان کی یاد میں اپنا غم بیان کرنا نہیں بلکہ یہ باور کرانا ہے کہ اگر انسان چاہے تو آج کے دور میں بھی ایک مثالی زندگی گزار کر بعد میں آنے والوں کے لیے ہمیشہ ایک زندہ و جاوید مثال بن سکتا ھے، شھید آفتاب بلوچ ایک پختہ دل اور فکری شخصیت کے مالک تھے جس نے ہر نشست پہ بلوچ اور بلوچستان کی آسودہ حالی کیلئے دن رات کو ایک کیا اور بلوچ و بلوچستان کی نامرادی اور حرماں نصیبی کے خلاف اپنی آواز بلند کی اور یہ بات سچ ثابت کردی کہ بلوچ مائک کے آگے اور AK47 کے پیچھے بہترین جنگجو ھے۔

آفتاب بلوچ سمیت تمام باشعور جہدکاروں کو سرخ سلام۔
شھید افتاب بلوچ ہمیشہ یہ کہتے تھے آخری بار بھی اس سے یہ الفاظ سنے
اپنے لوگوں اور گلزمین سے محبت کرو اور خود کو ایک مضبوط انسان بناؤ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں