آفتاب ایک مہکتا کردار – گندار زہری

460

آفتاب ایک مہکتا کردار

تحریر: گندار زہری

دی بلوچستان پوسٹ

بہترین کردار ایک ایسی صفت ہے جو کبھی فراموش نہیں ہو سکتا، تا ابد رہنے والے ایسے کرداروں کو پُوجا کرنے کا جی چاہتا ہے، اور یہی ایک صفت ہے جو حقیقت میں اشرف المخلوقات کے ہونے کا ثبوت دیتا ہے- محکوم بلوچ قوم کے درد کو سینے میں لے کر سامراج کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہونے والے شہید آفتاب عُرف وشین آج ایک مہکتا کردار بن کر امر ہوگیا، آفتاب کے ایک فیصلے نے ہماری نظریات کو بدل ڈالا، دشمن کے خلاف بندوق کا استعمال ہی راہ نجات کا ذریعہ ہے، ایک غیر مہذب دشمن سے نمٹنے کا واحد حل صرف بندوق ہے، جب ہم یہ بندوق تھام لیتے ہیں تو دشمن خود اپنے شکست کو تسلیم کر بیٹھتا ہے، شہید وشین نے سیاسی زندگی میں جو کچھ بھی سامراج کے خلاف کہا، اٌس پر عمل کرکے بھی دکھایا کہ ہم ایک غیرت مند قوم کے فرد ہیں، ہمیں کوئی زبردستی غلام نہیں بنا سکتا-

سوشل میڈیا کے ذریعے شہید آفتاب کی سیاسی زندگی میں نے کافی پڑھا تھا، دشمن ریاست پاکستان کی ہر ظلم و بربریت کے خلاف برسرِ پیکار مختلف احتجاجی ریلیوں کا حصہ بنکر دشمن کو للکارنے اور شعور اجاگر کرنے کے عمل سے آفتاب ہر مظلوم کے دل میں روشن ہو چُکا تھا، ہر فرد اُن کی قربت کو ترس رہا تھا کہ میں اُن سے کچھ سیکھ سکوں-

آخر کار وہ لمحہ آن پہنچا جس دن میں سورج کی طرح پُرجوش ایک ہمفکر و ہمدرد ذات سے رُوبرو ہونے ایک انجان جگہے پر پہنچا، جب سنگت کے بالاد پر نظر پڑی، تو میں سوچنے لگا کہ ایسے کردار ضرورت ریاست کو ایک دن ناکوں چَنے چبوانے پر مجبور کرینگے اور اپنے جیسے ہزاروں کردار جنم دے کر ریاست کی فتح کو شکست میں تبدیل کرینگے-

پہلی بار سنگت کی قُربت جب نصیب ہوئی تو محسوس ہونے لگا کہ سنگت کو بار بار سُنوں، بار بار اُن کے لبوں سے قوم کی بزگی کا راز جان سکوں، اُن کی بہترین انداز سے گفتگو، مستقل مزاجی سے الفاظ کو عملی جامہ پہنانے کا راز میں وہیں جان گیا کہ یہ کردار ایک دن قوم و وطن کی دفاع کے لئے خوشبو بن کر بکھر جائے گا—

میں ہاتھ ملانے کے بعد، سنگت کے مادرِ وطن کے لئے درد رکھنے والے سینے سے اس شدت سے گلے ملا جیسے کسی یعقوب کو یوسف مل گیا ہو۔

سنگت کی مہتاب جیسی سادہ مزاجی، قوسِ قزاح جیسے پُررنگ خیالات میری فکر و نظریات کو مزید مضبوط کرنے لگیں، امیدیں روشن ہو رہی تھیں، محسوس ہو رہا تھا کہ آج میں آزاد ہو گیا،
میرے خیالات چٹانوں جیسے سخت ہو رہے تھے-

میرے زبان سے یہ الفاظ میرے حکم کے بغیر سنگت سے یوں مخاطب ہوئے کہ آپ پھول ہیں جس کے خوشبو سے اہلِ وطن مستفید ہورہا ہے، لیکن آپ نے مزاحمت کا راستہ اتنی جلدی اختیار کیوں کیا، آپ کو اپنے قوم و وطن کی مظلوم باسیوں کی راہشونی کرنی تھی اُن کو غلامی اور غفلت کی نیند سے بیدار کر کے ان کو احساس دلانا تھا-

لیکن سنگت آفتاب کے اَدا کیے ہوئے الفاظ نے مجھے مُہرلَب کر دیا، کہنے لگے کہ قوم اب سمجھ گئی ہے کہ ہم غلام ہیں اور اب ہماری مزاحمت ہی اُن کو یقین دلائے گی کہ بغاوت کے بعد پہاڑوں میں مزاحمت کے بغیر ابدی غلامی سے نجات ناممکن ہے-

شہید آفتاب سے دوسری بار ملنے کی تمنا شدت سے جسم کے ڈھانچے سے لیکر روح تک سمایا ہوا تھا، لیکن نصیب کی بے جا مداخلت اور میری ذاتی کمزوریوں نے اس تمنا کو حسرت میں بدل ڈالا-

مجھے آج محسوس ہو رہا ہے کہ آفتاب نے قوم کی ضرورتوں کو محسوس کرکے ایک ایسا قدم اٹھایا جس کی وجہ سے آج بلوچ وطن کا ہر ورنا آفتاب بَن چُکا ہے، جو ریاست کو ہر وقت بولان میں مزاحمت کی صورت میں ملینگے-

ہمارے ایسے نوجوان جو زندگی کی بہترین آسائشوں کو ترک کرکے ایسے پُر کٹھن حالات کو تسلیم کریگا تو وہ دن دُور نہیں کہ ہم آزاد فضا میں سانس لے رہے ہوں – آفتاب کی روشنی آج بلوچستان کے ہر کونے میں چمک رہا ہے – ایسے کرداروں اور بلوچستان کے ہر شہید سنگت کے کردار کو سر جُھکا کر سرخ سلام پیش کرتا ہوں جنہوں ہمارے کل کے لیے اپنی ذات و نسل کو قربان کردیا-


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں