بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں آواران واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ آواران میں ہونے والا واقعہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے پہلا واقعہ نہیں بلکہ دہائیوں سے جاری ظلم و جبر کی ہی ایک کڑی ہے۔ بلوچستان میں جاری ریاستی مظالم تسلسل کے ساتھ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے جبکہ دوسری جانب عالمی دنیا نے اِن مظالم پر خاموشی کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں جاری یہ جبر کا تسلسل نا صرف جسمانی بلکہ نفسیاتی حوالے سے بھی ایک گھناؤنی شکل اختیار کر چکی ہے۔ گذشتہ روز آواران کے رہائشی نور جان پر تشدد کیا گیا جبکہ اُن کے عزت اور آبرو کو بالائے طاق رکھ کر بیٹی کو فوجی کیمپ پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔ اپنے گھر کی عزت اور آبرو کو محفوظ رکھنے کے لیے نور جان نے خود کشی جیسے عمل کا ارتکاب کیا ۔ بلوچستان میں جاری اِس طرح کے مظالم تسلسل کے ساتھ جاری ہیں ۔ جہاں ایک جانب نوجوانوں کو سالوں لاپتہ کیا جاتا ہے وہی بلوچ عورتوں کو بھی طاقت کے بل بوتے پر کیمپ منتقل کر کے اُن کو بے آبرو کرتے ہوئے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
ترجمان نےکہا جہاں چادر اور چار دیواری کی پامالی کرتے ہوئےنوجوانوں کو گھروں سے اغوا ءکیا جاتا ہے وہیں عورتوں کو اُن کے گھروں میں حراساں اور تشدد کا شکار بنایا جاتا ہے۔ ایک ایسے ماحول میں جہاں ریاستی ادارے طاقت کے زور پر خوف پھیلا کر عوام کو جسمانی اور نفسیاتی طور پر اذیتیں دے رہے ہیں وہی بلوچستان بھر میں ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کو کھلے عام اجازت دیکر عوام کے جان و مال کو مکمل غیر محفوظ بنایا دیا گیا ہے۔ بلوچستان میں جاری مظالم پر جہاں عالمی دنیا کی خاموشی ایک سوالیہ نشان بن چکی ہے وہیں اِس خاموشی کے باعث ریاست کی بربریت آئے روز شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔
اپنے بیان کے آخر میں ترجمان نے کہا جہاں ایک جانب عالمی دنیا فلسطین پر اسرائیلی بربریت کے خلاف واویلا کر رہی ہے وہیں بلوچستان میں دہائیوں پر محیط ریاستی جبر کے خلاف مکمل طور پر خاموشی ہے۔ ریاست پاکستان جہاں انسانوں کو برسوں زندانوں میں قید رکھنے جیسے جرائم کا مرتکب ہورہی ہے وہیں بلوچ نسل کشی میں شدت لائی جارہی ہے۔ عالمی انسانی حقوق کے ادارے انھی جنگی جرائم پر ریاست پاکستان کو قانون کے کٹہرے میں لا کر بلوچستان میں جاری مظالم پر ریاست کو جوابدہ کرے