بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4326 دن مکمل ہوگئے۔ مختلف مکاتب کے افراد نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
لاپتہ رحیم الدین کی بہن نے کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ انہوں نے کہا کہ آج لاپتہ افراد کے کمیشن کے سامنے پیش ہوئی تو انہوں نے کہا کہ آپ لوگوں کے حق میں فیصلہ ہوا ہے لیکن میرا بھائی پانچ سال گزرنے کے باوجود بازیاب نہیں ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ رحیم الدین کو 26 اگست 2016 کو ہمارے گھر سے لاپتہ کیا گیا جس کے شواہد ہمارے پاس موجود ہیں لیکن اگر کسی پاس میرے بھائی پر کسی جرم کے شواہد موجود ہیں تو عدالت میں آکر پیش کرے۔
وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ جہاں لاشوں کے انبار لگے ہوتے ہیں وہاں پر زندگی معمول پر نہیں ہوتی، جہاں جنازے پڑھائے جاتے ہیں وہاں پر خوشی نہیں ہوتی، جہاں بلوچوں کی زندگیاں محفوظ نہیں وہاں پھولوں کے ہار نہیں ملتے، جہاں موت مست گھوڑے کی طرح دھندناتا پھرے وہاں رونقیں اور شادکامیاں ماند پڑجاتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اقتدار کے بھوکے اس شرمناک اور انسانیت کے برخلاف بلوچ نسل کشی سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں، وطن کی غیرت مند نہیں خداوں کے بوٹوں تلے روندتے تشدد سہہ رہے ہیں۔ ظلم اپنی انتہاء کو پہنچ چکی ہے پوری انسانیت کو روندا جارہا ہے۔