بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4321 دن مکمل ہوگئے۔ لاڑکانہ سے سیاسی و سماجی کارکنان صدام جتوئی، علی حیدر، خاور محمد جنید جتوئی اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
ماما قدیر بلوچ کا اس موقع پر کہنا تھا کہ سندھیوں کا اپنی قومی شناخت اور زمین کا احساس حکرانوں کی خوش گمانیوں کے برعکس پرامن جدوجہد کی صورت میں بڑھتا ہوا نظر آتا ہےجیسے بلوچ پرامن جدوجہد فرزندوں کی بازیابی کے نظری اثرات نے اپنے عملی اور منظم اظہار کیلئے حوصلہ بخشا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک درد، ایک دشمن اور ایک ہی نجات کی راہ منزل نے بلوچوں اور سندھیوں کو ایک دوسرے کا فطری اتحادی بنای دیا ہے جس کے باعث دونوں محکوم اقوام کی پرامن جدوجہد میں اشتراک عمل کا پیدا ہونا لازمی ہے لہٰذا جس جرم کی سزا بلوچ اقدار ٹہرائے گئے تھے اسی جرم کے مرتکب ہونے کے سبب سندھی بھی قابل گردن زنی قرار پائے ہیں، پہلے بلوچ ماورائے قانون اغواء نماگرفتاریوں، قتل غارت گری اور لاپتہ افراد کی تشدد زدہ لاشوں کی صورت میں نسل کشی اور جنگی جرائم کا شکار تھے اب یہی سفاکیت سندھیوں کا مقدر بنا دی گئی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بلوچوں کی طرح سندھی بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ اس درندگی کا مظاہرہ کون اور کیوں کررہا ہے لیکن صرف بلوچ اور سندھی ہی کیوں اب تو پوری دنیا چیخ اٹھی ہے کہ پاکستان ریاستی مقتدرہ قوتیں اپنے نوآبادیاتی مفادات اور وجود کو لاحق خطرات سے گھبراکر وحشیانہ پن پر اتر آئے ہیں۔