بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4309 دن مکمل ہوگئے۔ عوامی ورکرز پارٹی کے سینئر ممبران اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ کا اس موقع پر کہنا تھا کہ لاپتہ کیے گئے بلوچوں کے لواحقین کی کسی بھی جگہ شنوائی نہیں ہوئی حتیٰ کہ جمہوری اور انسانی حقوق کے دعویدار سیاسی مذہبی جماعتوں، دانشوروں، میڈیا حلقوں کی جانب سے بھی خاموشی، بے حسی اور ذمہ دار قوتوں کی مداح سرائی کا فکر عمل سامنے آیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے لواحقین نے اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی عدل و انصاف کے داعی حلقوں اور اداروں سے نوٹس لینے کی بارہا اپیلیں کی مگر سوائے عوامی، سماجی اور غیر سرکاری سطح پر تنقید اور مذمتی ردعمل کے ایسا عملی کردار ادا نہیں کیا گیا جو متاثرہ لواحقین کی داد رسی اور انہیں مطمئن کرنے کا باعث بن سکتی۔
ماما قدیر کا کہنا تھا کہ ہر طرف سے ملنے والی مایوسی نے جہاں لاپتہ بلوچوں کی بحفاظت بازیابی کے مسئلے کو مزید طوالت اور پیچیدگی کا شکار کردیا ہے وہاں متاثرہ لواحقین کے کرب اور تکلیف کو بھی مزید بڑھا دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں اس ضمن میں کسی حد تک آواز بلند کرتے نظر آتے ہیں مگر وہ اس سلسلے میں باقاعدہ پرامن جہد مسلسل سے پہلو تہی کررہی ہے جس سے ریاستی قوتوں کو مزید حوصلہ مل رہا ہے۔