کتاب: شال کی یادیں
مصنف: زرک میر | تجزیہ: عثمان میر
دی بلوچستان پوسٹ
زرک میر ایک نامعلوم فرد ہے۔ ایک ایسے شخص جس کے قلم میں جادو ہے۔ اس نے زندگی میں پانچ عشق کئیں ہیں۔ اس کی محبوباؤں میں قلات ،گڈانی ،شال(کوئٹہ) اور بولان شامل ہیں۔ پانچواں عشق زر کا بہت ہی حساس عشق رہا ہے(شیتل جو کہ قلات کی رہنے والی ہندو لڑکی ہے )جس کو لے کر یہ شخص خیالات اور یادوں کی ایک الگ دنیا کی سیر کراتا ہے۔ دور حاضر کا سعادت حسن منٹو جس کی قلم کاری کے آگے اردو زبان کی تخلیق کاروں سے لے کر ڈرامہ نگار خلیل الرحمن قمر تک سب کے سب زیرو ہیں۔
بچپن کا زمانہ ایک سہانہ دور ہوتا ہے جب انسان قدرت کی بنائی ہوئی ہر چیز پر غور و فکر کرتا ہے اور کہی معصومانہ سوال ذہن میں آتے ہیں۔ گو کہ انسان جسمانی اور ذہنی طور پر پرورش پا رہا ہوتا ہے۔ جسمانی پرورش کے لیے کسی نہ کسی طرح پیٹ کی بھوک مٹا دی گئی لیکن بدقسمتی سے ذہنی پرورش کھو کھلی رہ گی۔ غیر منطقی باتیں اور تیار شدہ نظریات سے ذہنی پرورش ہوئی۔ مجھے یاد ہے (2005 )غریبی اور بے روزگاری کا زمانہ تھا ابا سارا دن سائیکل پر قلفیاں بیچتے اور کباڑی کا سامان خریدتے تھے جس سے ہماری جسمانی پرورش ہوتی تھی۔ تعلیم اور تعلیم یافتہ جو کہ ہمارے لئے دونوں ان سونی باتیں تھیں۔ بچپن کے سوالات میں سے ایک سوال یہ تھا کہ گرمی اور سردی کس طرح آتی ہے؟ جواب یہ ملتا کہ گرمیوں میں جہنم کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور سردیوں میں جنت کا جس سے موسم تبدیل ہو جاتی ہے۔ غرض جب جہنم کا دروازہ کھول دیا جاتا تھا تو ہم ذریعہ معاش کے علاقے( اوستہ محمد جہاں چاول کی کاشت کی غرض سے موسم سرما میں جاتے تھے جو کہ بلوچستان کا ایک گرم ترین علاقہ ہے) سے شال( کوئٹہ) کا رخ کرتے کیونکہ مشہور تھا کہ کوئٹہ جنت کا ٹوٹا ہے گو کہ شال ہمارے لیے جنت ہوا کرتی تھی۔
وقت کے ساتھ ساتھ سوالوں کے صحیح جواب ملتے گئے لیکن شال اب بھی جنت کے مانند ہے۔ جہاں کوہ چلتن ،کوہ مردار کسی خوبصورت محل سے کم نہیں، سیب کے باغات، ان میں بہتا ہوا پانی، پر سکون ماحول غرض تصور جنت کو مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
زرک میر کی کتاب (شال کی یادیں )میں بلوچستان کے الحاق سے لے کر نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت تک بلوچستان کے سیاسی،سماجی ،معاشی،بغاوتی، بد امنی، تمام تر حالات قلم بند ہے۔ جہاں تقسیم برصغیر کے بعد قلات کا مسلم ملک(پاکستان) میں الحاق، خان آف قلات کے بھائی پرنس آغا عبدالکریم کا اس الحاق کی نافرمانی اور بلوچستان میں بغاوت کی بنیاد ،بابو نوروز زہری کی 80 سال کی عمر میں پہاڑوں کا رخ کرکے جدوجہد کی بنیاد رکھنا، مینگل خاندان کی سیاست اور ڈیڈ ہوشیاری، نواب خیر بخش مری کی کامریڈی، مارکسی، جلاوطنی اور واپسی ،جرنل شیروف مری کی بہادری، نواب اکبر خان بگٹی کی پاکستان پرستی سے غداری کا تمغہ ،طلباء تنظیم بی ایس او کی بنیاد سازی، بلوچ پشتون تضاد(جو اب نہیں ہے)، افغان آباد کاری،سریاب(شال کا بلوچ آبادی علاقہ) کی سیاست ،بگٹی و کلپر میں لڑائی ،رندو رئیسانی قبیلہ کی تضاد، برصغیر میں پہلی سیاسی تنظیم “اتحاد بلوچاں” (1920) یوسف عزیز مگسی سے عبداللہ جان جمالدینی تک بلوچ آدب کے لئے خدمات۔ ڈاکٹر حئی سے لے کر فدا بلوچ ،حمید بلوچ ،عبدالحکیم لہڑی، میر عبدالنبی، ماما فیروز لہڑی، حبیب جالب اور کہی سیاسی اور قومی ورکرز کی زندگیاں قلم بند ہیں۔
ان یادداشتوں کا سلسلہ نواب خیر بخش مری کی شال ائیرپورٹ پر استقبال سے شروع ہوتا ہے جب مصنف پہلی دفعہ کسی سیاسی اجتماع میں شرکت کرنے جارہا تھا۔ وہ اس تناسب سے بڑا قومی استقبال تھا جب قومی رہنما وطن واپس آ رہے تھے۔ جیسا کہ دنیا کی قومی تحریکوں کی تاریخ رہی ہے کہ ان کے رہنما جلاوطن ہوتے ہیں اور انقلاب کی صورت میں جلاوطنی ختم کرکے واپس آتے ہیں تو پوری قوم امڈ آتی ہے۔ لیکن یہاں صورتحال کچھ مختلف تھی جہاں انقلاب ایک طرح سے ناکام ہو گیا تھا جس کے بعد یہ رہنما وطن چھوڑ کر چلے گئے تھے اور ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصہ باہر رہے۔ لیکن پھر بھی قوم کا جذبہ ایسا تھا گویا انقلاب آ چکا ہوں۔ چنانچہ اس اجتماع میں مشرق مغرب شمال جنوب اور وسط وطن کے ہر کونے سے لوگ آئے تھے ۔ گونگے بابا کے نام سے مشہور نواب مری کے استعمال کےلیے بغیر کسی اعلانیہ، درخواست، اپیل اور منصوبہ کے سب کو اکٹھا کر دیا تھا۔ یہاں سیاسی و غیر سیاسی قبائلی غیر قبائلی براہوی، بلوچی ،سرائیکی، سندھی اور دیگر زبانیں بولنے والوں کا عظیم اجتماع تھا۔ پوری قوم اختلاف بالائے طاق رکھ کر استقبال کے لیے امڈ آئی تھی۔ پھر مری کی حجرت نے بھی قوم کو امید دلائی تھی کہ مری بہت کچھ لینے گئے ہیں اور بہت کچھ لے کر آرہے ہیں۔ اس دن نواب خیر بخش مری نہیں آرہے تھے بلکہ یوں لگ رہا تھا کہ قوم کے مہدی آ رہے ہے، عیسی آرہے ہیں۔
نواب خیر بخش مری کی افغانستان واپسی کے لئےائیرپورٹ پر جانا مصنف کا پہلا سیاسی سفر تھا جو اس نے لاشعوری طور پر والد کے ساتھ شروع کیا۔ اس قافلے میں ماما فیروز لہڑی کی تین چار بسیں بھی شامل تھیں ماما فیروز اس وقت نواب بگٹی کے انتہائی قریب تھا تا وقت جنرل مشرف نے ریفرنڈم کرایا ماما اپنا دیرینہ سیاسی تعلق برقرارنہ رکھ سکے کہ وہ بلوچستان کے واحد ٹرانسپورٹر تھے۔ مصنف بھی انہی بسوں میں سے ایک بس میں بیٹھ گیا ایئرپورٹ پر گئے شام سے رات ڈھلنے لگی اچانک جہاز کی بتی فضا میں سرخ نظر آئی جہاں زمین پر موجود قافلے تھکے ہارے تھے لیکن جہازکی بتی دیکھ کر سب کھڑے ہوگئے اور نعرہ بازی شروع ہوگی ۔ سب کہنے لگے” مری مینگل آئیں گے انقلاب لائیں گے” اسی اثناء میں پشتونوں کے قبیلے کے لوگ بھی بند گاڑیوں میں پہنچ گئے سب کھڑے ہوگئے کہ پشتون کیوں آئے ہیں پتہ چلا کہ یہ محمود اچکزئی کے مخالفین جو نواب مری کے استقبال کے لیے آئے ہیں گو کہ نواب خیر بخش مری کے استقبال کے لیے ہر علاقے سے لوگ آئے تھے مری تو کافی تعداد میں تھے۔
نواب بگٹی نے کہا تھا کہ شال یروشلم ہے کوہ سلیمان ،چلتان،ہربوئی شاشان اور کوہ باتل کا سیاسی سنگم ہے ،یہ ہماری پہچان ہے۔ شال کی سیاسی تاریخ یوں تو بہت پرانی اور وسیع ہے۔ اس میں کئی نسلوں قوموں ، گروہوں کی جدوجہد کی تاریخ دفن ہے۔ شال کوبلوچ سیاست کے حوالے سے دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہیں اول اور بڑی سیاست کی گڑھ سریاب ہے جبکہ دوسری جانب ہدہ،کلی اسماعیل اور پھر ایئرپورٹ کے کچھ علاقے بھی انہیں کے ساتھ سیاسی تجربہ رکھتے آئے ہیں
بلوچستان کی سیاست اور حالات کو بہترین طریقے سے جانچا گیا ہے، بلوچ قوم کی تاریخ شاہد بے مورخی کی وجہ سے الجھن کا شکار رہی ہے۔ بقول شاہ محمد مری صاحب (پری ہسٹاریکل بلوچستان) “بے مورخوں کی زمین (بلوچستان) ہے، کاش ہم بے پیر ہوتے ،بے میر ہوتے پر بے مورخ نہ ہوتے” اس کتاب کے پڑھنے کے بعد آپ یہ دعویٰ غلط ثابت کر سکیں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں