پروگریسیو یوتھ الائنس کا طالبعلم سہیل بلوچ و فیصل کے گمشدگی کی مذمت اور بازیابی کا مطالبہ

182

پروگریسیو یوتھ الائنس  بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ 31 مارچ 2021 کو تربت کے علاقے شہرک سے لاہور میں زیرِ تعلیم دو بلوچ طلبہ سہیل احمد بلوچ اور فیصل بلوچ کو ریاستی اداروں نے جبری طور پر لاپتہ کیا ہے جوکہ اب تک لاپتہ ہیں۔ تب سے ان کی باحفاظت بازیابی کیلئے بلوچ کونسل لاہورسوشل میڈیا پر مسلسل سراپا احتجاج ہے اور اب دوسرا مہینہ شروع ہونے کے بعد اب تک دونوں طلبہ لاپتہ ہیں، جوکہ آئین و قانون کی نام نہاد بالادستی پر ایک بدستور سوال ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ پروگریسیو یوتھ الائنس کا موقف دو ٹوک اور واضح ہے کہ سہیل احمد بلوچ اور فیصل بلوچ سمیت تمام لاپتہ سیاسی کارکنان کو فی الفور بازیاب کیا جائے اور اگر ان سے کوئی جرم سرزد ہوا ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔ مگر پروگریسو یوتھ الائنس یہ سمجھتا ہے کہ سہیل احمد بلوچ اور فیصل بلوچ کی جبری گمشدگی کوئی مخصوص اور الگ تھلگ کاروائی نہیں ہے بلکہ ریاست کی طرف سے سیاسی کارکنوں، قلمکاروں، صحافیوں اور حکومتی و ریاستی پالیسیوں کے ناقدین کے خلاف عمومی ریاستی ردعمل کا ہی تسلسل ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ بیرونی دباؤ، داخلی انتشار اور معاشی تناؤ کے باعث ریاست اس قدر بوکھلاہٹ اور تذبذب کا شکار ہے کہ وہ ہلکی سی بھی تنقید برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس لیے بلوچستان ،سابقہ فاٹا، سندھ میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ تو جاری ہے، مگر اب یہ سلسلہ پنجاب میں بھی شروع ہوا ہے، جہاں پر بائیں بازو کےقوتوں کے ساتھ ساتھ دیگر ترقی پسندوں اور حتیٰ کہ دائیں بازو کے لبرل لکھاریوں کو بھی ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جوکہ درحقیقت ریاستی جبر کی ہولناکیوں کا واضح ثبوت ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ پروگریسو یوتھ الائنس عوام کی جمہوری آزادیوں پر ہر قسم کے حملے کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ تمام جبری طور پر اغواء کیے گئے سیاسی و سماجی کارکنوں اور صحافیوں کو فی الفور بازیاب کیا جائے اور آئندہ کے لیے اس طرز کی غیر آئینی اور آمرانہ پالیسیوں کا سلسلہ ختم کیا جائے۔

مزید کہا گیا ہے کہ وہ وقت گزر چکا جب کسی کو بھی غدار قرار دے کر عقوبت خانوں میں ڈال دیا جاتا تھا اور جو بھی ریاستی بیانیہ سامنے لایا جاتا تھا، عوام کی اکثریت اسے قبول کر لیتی تھی۔ اب لوگوں نے سوال اٹھانا شروع کر دیئے ہیں۔ سوال کرنے والوں کو مار دینے یا لاپتہ کر دینے سے سوال قتل نہیں ہوسکتے۔ سوال نہ صرف یہ کہ اپنی جگہ موجود ہیں بلکہ بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ ایک آواز دبائی جائے گی تو سینکڑوں لوگ ہم آواز ہو کر بولیں گے، سینکڑوں آوازوں کا گلہ گھونٹا جائے گا تو ہزاروں، لاکھوں اور کروڑوں آوازوں کا ہجوم حکمران طبقے کی نیندیں حرام کر دے گا۔