بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4319 دن مکمل ہوگئے۔ مستونگ سے بی ایس او پجار کے سابقہ ضلعی صدر ناصر بلوچ، جمیعت طلباء اسلام کے سابقہ جنرل سیکرٹری خالد مسعود نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
سنہ 2013 سے کلی جیو کوئٹہ سے جبری گمشدگی کے شکار ہونے والے ظفر اللہ بنگلزھی کے والدہ نے احتجاجی کیمپ میں شرکت اور اپنا احتجاج رکارڈ کروایا۔
انھون نے اپیل کی ہے کہ ان کے بیٹے کو منظر عام پر لایا جائے۔
انھوں نے کہا ان کے بیٹے کو گمشدگی کئی سال گزرچکے ہیں اور ہمیں ان کے بارے میں کوئی معلومات نہیں کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہے جس سے پورا خاندان ایک اذیت کوش حالت میں مبتلا ہے حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ میرے بیٹے کے بارے میں بتائیں کہ وہ کہاں ہیں اور انھیں کس جرم پابند سلاسل کیا گیا ہے۔
وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ آج ہم ایک بار پھر اپنی پرانی روش کی طرف لوٹ رہے ہیں جہاں سے ہماری شروعات ہی ایک دوسرے کو قبول نہ کرنے، انا کی پرورش، ذاتی پسند نا پسند کے خول میں رہنے، شعور کی جگہ اپنا فیصلہ ٹھوسنا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچ اپنے پاک لہو سے سڑکوں، بیابان اور گلیوں کو سرخ کررہے ہیں، مائیں اپنے جوان سال بیٹوں کے لاشوں پر ماتم کرتی ہیں، ضعیف العمر باپ اپنے جوان بیٹے کی میت کو کندھا دے رہے ہیں۔
ماما قدیر کا کہنا تھا کہ ہم کیوں بھول چکے ہیں کہ انہوں نے اپنے حصے کا فرض ادا کیا ہے اب ہمیں کچھ کرنا ہے، شہیدوں نے اپنے پاک لہو سے جس چراغ کو روشن کیا ہے۔ مگر میرے نادان دوست اپنے ہی دوستوں کے پاوں کھینچنے پر تلے ہوئے ہیں۔