نظریہ ءِ تنہائی
Theory of Isolation
تحریر: معشوق قمبرانی
دی بلوچستان پوسٹ
بین الاقوامی تعلقات (International Relations) میں ہم جو سب سے پہلا جُملہ پڑھتے ہیں وہ یہ ہے کہ “کوئی بھی قوم تنہائی میں زندہ نہیں رہ سکتی۔”
دُنیا کے اندر ساری قومیں ، گروہ اور نوعِ انسانی صرف سماج بنا کر ہی ارتقا کا سفر جاری رکھ سکتے ہیں۔ انسان میں شعور ہے اس لیئے انسان سماج بنا کر رہتا ہے۔ حیوانوں میں شعور نہیں ،اس لیئے ان کے سماج نہیں ہوتے۔
جو لوگ گروہ یا تنظیمیں اپنے سماجی اسٹرکچر سے نکل کر تنہائی کے طرف چلے گئے ، وہ زیادہ عرصہ اپنی بقا اور زندگی کی جنگ جاری نہیں رکھ سکے۔
تبدیلی ایک مسلسل جدلیاتی عمل ہے۔
دُنیا میں آج تک تبدیلی ER2 (اِی آر اسکوائر) کے فارمولے کے ذریعے آئی ہے۔
١۔ اوولیوشن = E
٢۔ رفارمیشن = R
٣۔ روولیوشن = R
جو لوگ ، گروہ ، تنظیمیں یا قومیں تبدیلی کے اس قانون سے کٹ گئی ہیں یا حالات کے مطابق خود میں تبدیلی اور ارتقا کرنے سے قاصر رہی ہیں ، وہ تاریخ کے صُفحوں سے مِٹ گئی ہیں۔ یہ قانونِ فطرت ہے کہ غافل ،کاہل ، سست اور غیر تبدیل شدہ قوموں کا انجام تاریخ کے صفحوں میں عبرتناک ہوتا ہے۔
ان کی جگہ دوسری طاقتور ، محنتی اور صالح قومیں پُر کرتی ہیں۔
تبدیلی اور ارتقا کا یہ ہی قانون انسانی سماج میں شخصیات ،گروہوں اور تنظیموں پر بھی لاگو ہوتا ہے کہ وہ بدلتے حالات کے مطابق اب سماج کے لیئے کتنے کارگر اور فائدہ مند رہ گئے ہیں؟
سندھ کی سیاسی سماجی اسٹرکچر کا جب ہم جارحانہ جائزہ لیتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ سندھ کی تقریبا ساری سیاسی سماجی پارٹیاں ، شخصیات اور گروہ سندھ کو درپیش موجودہ دور کے چیلینجز کے حساب سے بالکل مُدہ خارج بن چکے ہیں۔
ان کے پارٹیوں اور پالیسیوں کا اسٹرکچر آج بھی وہی سرد جنگ 80اور 90 کی دِہائی والا ہی ہے۔ بدلتے حالات کی زبردست سیاسی اور اسٹریٹجک تقاضاوں کے مطابق وہ خود کو ڈھالنے کے لیئے تیار ہی نہیں ہیں۔ اس لیئے سوائے پریس رلیز اور پریس کانفرنس یا چند سئو لوگوں کے احتجاجوں کے سندھ کی بدلتی ہوئی ڈیموگرافی اور اسٹریٹجک پوزیشن کا ان کو کوئی اداراک ہی نہیں کہ اس صوررتحال کو کیسے منہ دیا جائے گا؟ یہ لمحہءِ فکریہ ہے۔
اس ساری صوررتحال کے پیچھے دوسرے کئی اسباب کے ساتھ ایک بہت بڑا نفسیاتی کارن ہے۔ جس کو میں “نظریہِ تنہائی یا آئوسیلشن ” کا نام دیتا ہوں۔ جس کا سب بہت بُری طرح سے شکار ہیں۔ جس کی وجہ سے سب الگ الگ چھوٹی چھوٹی ٹولیوں اور گروہوں میں بٙٹے ہوئے ہیں۔ یہ قومی لیڈرشپ کی صلاحیت کا سوال ہے۔
مارکس ایسی کیفیت کو “فلسفہء بیگانگی (Philosophy of Alienation) کا نام دیتا ہے۔ جس کیفیت میں سرمائیدار ذہنیت ایسا ماحول پیدا کرتی ہے کہ ایک محنت کش کے اپنے ہی ہاتھوں سے بننے والی پیداوار سے ذہنی اور نفسیاتی تعلق اور دلچسپی ٹوٹ جاتی ہے۔ یہ ہی صورتحال سندھی سماج اور اس کے اندر بننے والی گروہی سوچ کی پیداوار جماعتوں کے بیچ پیدا ہونے والی دوری کی ہے۔
جنگیں جیتنے کے لیئے نفسیاتی اسٹریٹجی سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔
نیپولن بوناپارٹ نے ایک لیڈر کی صلاحیت اور خاصیت کا خلاصہ کچھ اس طرح سے کیا ہے کہ “اگر کسی 10 لوگوں کی گروہ کے لیڈر کو آپ 1000 لوگوں کی تنظیم کا لیڈر بنائیں گے تو وہ آہستہ آہستہ باقی 990 لوگوں کو نکال کر واپس 10 لوگوں تک ہی آکر پہنچائے گا۔ کیونکہ اس کی صلاحیت ہی 10 لوگوں کی جتنی ہے۔ وہ ایک ہزار لوگوں کا لیڈر کیسے بن سکتا ہے؟
اور اگر آپ کسی ایک ہزار لوگوں کے لیڈر کے 990 لوگوں کو توڑ کر اس کے پاس باقی 10 لوگ بچائیں گے تو وہ واپس ان 10 لوگوں میں سے 1000 لوگ بنا دے گا ۔ کیونکہ اس کی صلاحیت زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنی جدوجہد میں شامل کرنے والی ہے۔ “
یہ مثال ہماری سندھی سماج میں پیدا ہونے والے لیڈران پر بلکل فِٹ ہوتا ہے کہ یہ دارصل ہیں ہی 10 سے سئو سوا سئو لوگوں کے لیڈر ، ان کی ٹوٹل صلاحیت ہی اتنی ہے۔ اس سے بڑھ کر ساری سندھی قوم کو مُتحد و مُنظم کرنے اور قومی جدوجہد میں شامل کرنے کی نا ان کی صلاحیت ہے، نا اہلیت اور نا ایسی کوئی اسٹریٹجی۔ کیونکہ کہ وہ گروہی نفسیات (Group Psycholgy) میں سوچتے ہیں ۔ جِسے میں “نظریہِ تنہائی یا تھیوری آف آئوسلیشن” کا نام دے رہا ہوں۔
کسی گاوں کا ایک قصہ ہے کہ “ایک آدمی کو گھر والوں نے پِٹائی کرکے گھر سے نکال دیا ، وہ اپنے کسی دوست کے گاوں آیا ۔ اور اس کے پاس ٹہرا۔دوست نے اس سے روایتی انداز میں حال احوال لیتے ہوئے پوچھا کہ گھر والوں کا حال احوال بتائو ؛ بھائی کیسے ہیں؟
اس نے کہا کہ بھائی بیکار آدمی تھا ، اُسے میں نے گھر سے نکال دیا۔
دوست نے پھر پوچھا کہ بھلا بابا کا حال احوال دیں ، بابا کیسے ہیں؟
اس نے کہا کہ بابا بھی گھر میں اچھا نہیں چلتا تھا، اُسے بھی گھر سے نکال دیا۔
دوست حیران ہوگیا ،دوست نے کہا اچھا؟
چلو خیر ، اپنے علائقے اور گاوں والوں کا حال احوال بتاو ، وہ کیسے ہیں؟
اِس نے جواب دیا کہ وہ بھی سب کے سب بیکار تھے ، میں نے انہیں بھی نکال دیا۔
اتنے میں دوست نے اُسے کہا کہ
سیدھا سیدھا یہ کیوں نہیں بولتے کہ سب نے تُمہیں وہاں سے نکال دیا ہے؟
معنیٰ وہ سب کے سب خراب تھے ، ایک تم ہی اچھے آدمی رہ گئے تھے ! “
ہمارے سندھی سماج کا آج تک یہ ہی المیہ رہتا آیا ہے کہ ہمارے ہاں بھی ساری پارٹیوں کے سارے لیڈروں نے ایک دوسرے کو “نکال” دیا ہے۔ باقی دودھ کے دُھلے بس وہ ہی چند دانے بچ گئے ہیں .
اسی طرح قوم نے ان سب کو خود میں سے نکال دیا ہے . یہ ایک شدید قسم کا نفسیاتی ڈس آرڈر ہے۔ جس میں تقریباٙ سارا سماج مبتلا ہے۔
اس تھیوری آف آئوسیلیشن کا شکار ہونے کے تین بنیادی فیکٹرز ہوتے ہیں؛
١۔ یوٹوپیائی تصورات میں رہنا Utopian concepts
٢۔ خود فریبی کا شکار ہونا Dogmatism
٣۔ فراریت اختیار کرنا Escapism
ایسے لوگ جدوجہد اور اسٹریٹجی کا کوئی واضح خاکہ دینے کے بجائے محض جذباتی باتیں کرکے زمینی حقائق سے راہِ فرار اختیار کرتے ہیں۔
وہ ‘خود فریبی’ کا شکار ہونے کی وجہ سے شعوری اور لاشعوری طور پر ‘قوم فریبی’ کر رہے ہوتے ہیں۔ اپنے زمینی ، سماجی اور عوامی موافقات سے کٹ کر ، ہر وقت خیالی اور تصوراتی باتیں کرتے ہیں۔
ایک شاعر بیمار ہوگیا ، اس سے کسی صحافی نے پوچھا کہ آپ کا مطالبہ کیا ہے؟
شاعر نے کہا کہ حکومت میری سار سنبھال نہیں کرتی!
صحافی نے مزاحیہ انداز میں کہا کہ “آپ کو حکومت نے کہا تھا کیا کہ شاعری کرو؟”
ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہی رہتا آیا ہے کہ ہم جس قوم کی جدوجہد کی بات کرتے ہیں اپنی جدوجہد سے اُسی ہی قوم کی اجتماعیت والی سوچ کو نکال کر صرف اپنے ‘ذہنی ڈھانچے’ کے حساب سے سوچتے ہیں اور جدوجہدوں کا اعلان کرتے ہیں ۔
پھر کہتے ہیں کہ قوم ساتھ نہیں دیتی! یا قوم کو اُلٹا سیدھا بولتے ہیں۔
قوم ہم امریکا یا یورپ سے تبدیل نہیں کر سکتے۔ قوم تو یہ ہی ہے، ظاہر ہے انقلاب اِسی ہی قوم میں لانا ہے۔ دُنیا کی ساری قومیں انقلاب سے پہلے ایسی ہی ہوتی ہیں۔
باقی ایسے کیسے ہو سکتا ہے کہ جو جدوجہد قوم کے اجتماعی شعور کے ذریعے اجتماعی مقصد کے لیئے چل رہی ہو اور وہ جدوجہد خود اپنے آپ میں اتنی بھی ‘موٹیویشن’ پیدا نہیں کر سکتی ہو کہ وہ اپنی ہی قوم یا اس کے باشعور لوگوں کو اس میں شامل نہیں کر سکے؟ یہ بات تو کسی بھی جدوجہد کے سیاسی اور سائنسی لاجک کے ہی خلاف ہے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس طرح کی باتیں کرنے والے اور قوم کو مٙیار دینے والے لوگ شدید سیاسی اور نفسیاتی آئوسیلیشن کا شکار بنے ہوتے ہیں۔
بقول عظیم جنگی جرنیل نیپولن بوناپارٹ کے ” قومیں اور فوجیں کبھی نا اہل اور ناکارہ نہیں ہوتیں بلکہ ان کے لیڈر اپنی نا اہلی اور ناکاریت کا الزام اپنے سپاہیوں پر لگاتے ہیں۔ سپاہی یا قوم کا فرد وہ ہی کرتا ہے جو لیڈر ڈائریکشن دیتا ہے۔
اگر آپ کسی ایک ہزار شیروں کا لیڈر ایک گِیدڑ کو بنائیں گے تو ایک ہزار شیر بھی اُسی گیدڑ کی موت مریں گے ۔ لیکن اگر آپ ایک ہزار گیدڑوں کا رہنما ایک شیر کو بنائیں گے تو ایک ہزار گیدڑ بھی شیر کی طرح لڑیں گے۔”
تھیوری آف آئوسیلشن سے کیسے نِکلا جائے ؟
یونیفکیشن آف اِٹلی ہو یا یونیفکیشن آف جرمنی۔
جب دیوارِ برلن گِر سکتی ہے تو پھر ہمیں سندھی قوم کو مُتحد و مُنظم کرنے اور اُسے اِس صورتحال سے نکال کر آزاد کرانے کے لیئے ہمارے دلوں سے ایک دوسرے کے خلاف ثانوی اختلافات ، دُوری اور تٙفرقے کی دِیوار کیوں نہیں گِر سکتی ؟
سائیں جی ایم سید نے اپنے عالمی نظرئے میں جس “اتحادِ انسانی” کا مشن بتایا ہے ، اس مشن کی تکمیل تک پہنچنے کا پہلا اسٹیج “اتحادِ قومی” (قومی اتحاد) ہے۔
جس قومی اتحاد میں ہمیں متحد ہونے کے لیئے یہ بنیادی اصول بنانے ہونگیں؛
1 ۔ اپنے تمام سیاسی، سماجی،مذہبی و طبقاتی نظریات و اختلافات ایک سائیڈ پر رکھ کر ہمیں چند ایسے “بُنیادی قومی نُقاط ” پر متفق ہونا ہوگا ، جس میں
١۔ سندھ کی جغرافیائی سلامتی
٢۔ قومی وجود و وسائل کو بچانے
٣۔ اور مشرکہ قومی مفادات کا تحفظ شامل ہو۔
2۔ جو بھی فرد ،گروہ یا پارٹی اس قومی اتحاد میں کوئی بھی دٙراڑ پیدا کرے ، اسے سندھ کی اجتماعی جدوجہد اور قومی وجود کے لیئے نقصانکار عنصر قرار دینا ہوگا۔
3۔ سندھ میں بننے والی ایسی تمام فردی ،گروہی اور آئوسیلیٹیڈ پاکیٹ پارٹیوں اور گروہوں کو سندھ کے اجتماعی شعور کے مُنظم ہونے کے آگے رکاوٹ قرار دے کر رٙد کرنا ہوگا۔
4۔ سندھ میں قومی اتحاد پیدا کرنے کے لیئے اجتماعی قومی سیاسی اور انقلابی شعور کی جدوجہد کرنے والی تمام تنظیموں ، فورمز اور اداروں کی حوصلہ افزائی کرکے انہیں ایک ہی قومی لٙڑی میں پہننے کی پیش قدمی کرنی ہوگی۔
5 ۔ “تھیوری آف آئیسولیشن” سے نکلنے کے لیئے ہمیں “تھیوری آف یونین” کو پڑھنا ، سمجھنا اور اپنانا ہوگا۔
(جس تھیوری پر آنے والے مضمون میں تفصیلی لکھوں گا۔)
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں