میرے بھائی کو لاپتہ ہوئےچھ سال مکمل ہوچکے ہیں اگر میرے بھائی پر اگر کوئی الزام ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔
13 اپریل 2015 کو پاکستانی فورسز کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والے ظہیر احمد کے بڑے بھائی نے کہا ہے کہ میرے بھائی کو چھ سال قبل بلوچستان کے صنعتی شہر حب چوکی سے فورسز نے اس وقت بس سے اتار کر لاپتہ کردیا جو پنجگور سے کراچی جارہے تھے۔
انہوں نے کہا میرے بھائی کو صبح چھ بجے کے قریب الیوسف بس سے اتار کر سفید کلر کے ویگو گاڑی میں ڈال کر اپنے ساتھ لے گئے جو تاحال لاپتہ ہیں۔
انہوں نے ریاستی اداروں سے اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں بحیثیت ایک پرامن پاکستانی شہری اپنے ملک کی اداروں سے اپیل کرتا ہوں کہ اگر میرے بھائی سے کوئی غلطی سر زد ہوئی ہے تو ہماری پوری فیملی معذرت خواہ ہیں۔ اس مقدس ماہ رمضان کا واسطے انہیں رہا کریں۔
خیال رہے کہ بلوچستان میں جبری گمشدگی ایک انتہائی تشویشناک مسئلہ ہے گذشتہ دو دہائیوں سے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوچکا ہے، سیاسی و سماجی کارکنوں کو ہزاروں کی تعداد میں لاپتہ کیا جاچکا ہے اور کئی نوجوان مسخ شدہ لاشوں کی صورت میں میدانوں، بیابانوں اور سڑکوں سے ملے ہیں۔