شہید طارق کریم بلوچ کا بسیمہ اور ہم؟
تحریر: الیاس بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
آج یعنی 11 مئی شہید طارق کریم بلوچ کا دسواں برسی ہےاوربسیمہ سمیت پورا رخشان اور بلوچستان میں اس دن کو یوم سیاہ کے طورپر ماناجاتا ہے کیونکہ اسی دن کو ہم ایک ایسے رہنما سے محروم ہوگئے جو آزاد بلوچستان کے ضامن ہونے کا وعدہ کرچکا تھا ۔
اسی راہشون کی بدولت آج ہم فلسفہ ء آزادی سے آشنا ہیں اسی کامریڈ کی وجہ سے ہمیں آزادی کا درس ملتا رہا وہ جس کی روشن خیالی سے بسیمہ سمیت خاران میں مسلح جدوجہد کا آغاز ہوگیا اور اسی کی بدولت اس ریجن میں مسلح جنگ عروج پہ پہنج گیا۔ وہ جس نے بلوچ نوجوانوں کو قومی غلامی کا احساس دلایا۔
شہید طارق جو سوچتا تھا وہی کرتا تھا جو خواب دیکھتا تھا وہ پورا کرنےکی جہد کرتاتھا ، اس کی بسیمہ میں کوئی بھی بلوچ نوجوان کسی بھی صورت ریاست کی غلامی نہیں کرے گا اس کی بسیمہ میں ذاتی رنجشیں ، سطحی سوچ ، لالچ، انا پرستی اور غلامانہ سوچ کا خاتمہ ہوگا۔ اس کی بسیمہ میں بلوچ نوجوان اپنے قومی ذمہ داری کو سمجھ کربھر پور جہد کرینگے اور عوام کو باشعور بناکر ریاستی غلامی سے چھٹکارا پائینگے ۔ اس کی بسیمہ میں ایک ایسی سماج کا تشکیل ہوگا جہاں ہر بلوچ ایک دوسرے کا مکمل احترام کرے گا ، ایک دوسرے کوکامیاب بنانے کیلئے بھر پور تعاون کرینگے اس کی بسیمہ میں جب بھی بلوچ ورنا ایک دوسرے سے ملیں گے اپنے شہدا کو یاد کرکے انکی مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے پالیسی بنائینگے ۔ اس کی بسیمہ میں آزاد بلوچستان کا نعرہ ہمیشہ بلند ہوتا رہے گا اور بلوچ نوجوانوں میں جذبہ ء قربانی بڑھتا رہے گا۔ یہ تھا اس عظیم استاد کا بسیمہ جس کیلئے اس نے اپنے جان کا نذرانہ پیش کیا۔
اور ہم؟
اس نے تو اپنے سارے وعدے پورے کئے ، اس نے بلوچ قومی آزادی کی آواز کو نوجوانوں تک پہنچایا، طارق بلوچ نے ہمیں فلسفہ ء آزادی سے آشناء کرکے اپنا فرض ادا کیا ، بدلے میں ہم کیا کررہے ہیں؟
جو شہید طارق جان کا خواب تھا ، جو اس کا فلسفہ تھا بالکل اس سے برعکس چل رہے ہیں ۔ بسیمہ ریاستی غلامی کا گڑھ بن چکا ہے ہر تیسرا بندہ ریاست کا آلہ کار بننا چاہتا ہے 75 ٪ نوجوان بلواسطہ یابلاواسطہ ریاست یا ڈیتھ سکواڈ کا ممبر بننا چاہتا ہے اس مشکل دور میں ذاتی رنجشیں بہت مظبوطی سے جڑ پکڑ چکی ہیں ۔ فرسودہ سوچ دوبارہ جنم لے رہی ہے ،نوجوانوں میں پھر سے غلامانہ سوچ جنم لے رہا ہے مثال کے طور پر نوجوان ریاستی حمایت یافتہ لوگوں کے ساتھ تصویر یا انکے بندوق کو اٹھا کر تصویر کھینچوا کر سوشل میڈیا پہ نوابزادہ ، سردارزادہ یا میر وغیرہ کا لقب دے کر سمجھتے ہیں وہ واقعی میں نواب وغیرہ بن گئے۔ اور یہ غلامی کی بدترین مثال ہے۔
جب بھی کبھی کسی مجلس میں بیٹھتے ہیں سطحی سوچ کا ایک ٹاپک سلیکٹ کرکے پورا چار پانچ گنٹھے ضائع کرکے گھر جاکر ایسے فخریہ انداز میں کہتے ہیں جیسے انہوں نے کوئی ملک فتح کی ہو۔
سیاسی حوالے سے کوئی بھی نام نہاد قوم پرست یا مذہبی ملا یا پینل والا انہیں بڑی آسانی سے چونا لگاکر انہیں اپنا جی حضور بناتے ہیں۔ شعوری تعلیم سے کوسوں دور ریاست کی غلامی کو ترجیح دیتے ہیں۔ان کے ہاں تعلیم ڈگری یا نوکری لینے کی حد تک ہے۔
ایک ایسی نسل تیار ہورہا ہے جو ہر تباہی کا ضامن ہوگا ، جو اپنے چھوٹے چھوٹے خواہشات کیلئے ہر قربانی دینے کو تیار ہوگا، ان کے ہاں ترقی ایک جوڑا کاٹن کا کپڑا ایک اچھا مکان اور ایک صرف گاڑی ہے ۔یہ ہمارا بسیمہ ہے جس میں ہم آج جی رہے ہیں اور ایک خوبصورت بسیمہ جو شہید طارق کریم کا تھا ۔
آخر میں ، میں بسیمہ میں بچھے کچھےمخلص دوستوں اور سفید ریش بزرگوں سے التجاء کروں گا کہ نظریاتی اور فکری حوالے سے نوجوانوں میں تعلیم عام کریں۔ اور ان کی ذہنی تربیت کریں تاکہ شہید طارق کا بسیمہ بحال ہو اور پھر سے سطحی سوچ کا خاتمہ ہو اور قومی بقاء کیلئے کام کا آغاز ہو اور شہید طارق کا مشن پورا کرنے کیلئے اپنے ذاتی خواہشات کو ختم کرنا ہوگا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں