ساگر سے آجو تک کا سفر – امجد دھوار

333

ساگر سے آجو تک کا سفر

تحریر: امجد دھوار

دی بلوچستان پوسٹ

کہتے ہیں کہ جب بھی زخم گہرے ہوں تو انسان بات کی گہرائی کو بھی محسوس کرنے لگتا ہے جہاں وہ بہت کچھ محسوس کرتا ہے ، دنیا کی رنگینوں کے دوسرے پہلو بھی دیکھ رہا ہوتا ہے، جو بہت ہی درد ناک ہوتے ہیں جنہیں سوچنا بھی کسی خونی کیفیت سے کم نہیں ہوتا ۔ ایسی ہی خونی کیفت کا شکار میں بھی تھا، جہاں مجھے دنیا کی رنگنیاں قیامت جیسی لگنے لگتی تھیں، ایسی ہی دسمبر 2014 کی ایک خشک سرد رات تھی، مہتاب بھی بار بار بادلوں میں چھپ رہا تھا، شال کی زمین جیسے میرے لئے تنگ تھی ، شال کی فضا میں دکھتے بادل بھی مہتاب کی راہ میں رکاوٹ بن رہے تھے خوبصورت مہتاب پھر بھی بادلوں کو چیرتی ہوئی خوبصورتی کو دوبالا کر رہی تھی یہ وقت مجھ پہ بھی تنگ تھا جہاں میں اپنے دلربا حانی کو محسوس کر رہا تھا رات کی خاموشی مجھے بھی کچھ لکھنے پر مجبور کر رہی تھی، حانی کو میں بہت ہی محسوس کر رہا تھا جہاں اس کی خوبصورت آنکھیں مجھے خوبصورت کائنات کو محسوس کروا رہیں تھیں، وہیں اپنی زندگی کی پہلی شاعری میں نے حانی کہ نام پر اپنے ڈائیری پر تحریر کرنے کی کوشش کی۔ جہاں بہت سارے وسوسے میرے دل میں آنے لگے کہ میں جو کچھ لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں کیا وہ واقعی میں ایک شاعری ہو گی کیا میں شاعری لکھ سکونگا کانپتے کانپتے میں نے اپنی پہلی شاعری لکھ لی جس سے مجھے دلی سکون محسوس ہونے لگا جسے دوستوں کو دکھانے کے بعد معلوم ہوا کہ میں تو بہت اچھا لکھ سکتا ہوں یہ میرے لئے بہت ہی خوشی کی بات تھی جسے میں اب بھی یاد کرتا ہوں

ہزارا غزل تے تفو خن تے آ نا
جواہر ءُ موتی بِنو خنتیان نا

کُنیرہ کنے خنک دے ئَس ہُر نی ساگر
شبیر مشکلے ای بچو خنتیان نا

وقت گزرتا گیا میں دوستوں کیلئے اک گہرا ساگر بنتا گیا جس کی گہرائی میں ڈوبنا مجھے بھی اچھالگنے لگا خوبصورت سمندر کی لہروں سے عشق کی گہرائی میں ڈبونے لگا ایک ایسی گہرائی جہاں میرا غم ہلکا ہونے لگا مجھے شاعری کی دنیا میں زخموں کی گہرائی محسوس ہونے لگی، جہاں میں اپنے دلربا حانی کی ہرنی جیسی آنکھوں کو سمندر کی تیز لہروں سے زیادہ خاموش گہرائی کو محسوس کرنے لگا تب مجھے ایسا لگا محبوب پر لکھی گی شاعری تو بہت ہی کمال کی ہوتی ہیں اکثر میں ایسے جگوں کی تلاش میں ہوتا جہاں میں اپنے دلربا کو محسوس کر سکوں تا کہ اس کی ہرنی جیسی آنکھوں کی صفت شاعری کیزبان میں بیان کر سکوں دلربا کی صفت پر کچھ نہ کچھ لکھنے سے مجھے خوشی محسوس ہوتی ایسا لگتا کہ میرے سر سے ایک بھاری بوجھ اتر رہا ہو۔

کہتے ہیں وقت بھی بہت کچھ بدل دیتا ہے ، شاید میرے لئے بھی بدلنے کا وقت آیا تھا ایسے ہی وقت گزرتا گیا دن بدلتے گئے خوبصورت آنکھوں کی شاعری سے مجھے وطن کا درد محسوس ہونے کو ملا جہاں بدلتے حالات شال کی بے بسی ماؤں کے بہتے آنسو بہنوں کی چیخ و پکار ان کے آنکھوں میں انتظار کی امید مہربان باپ انتظار میں معصوم بچوں کے پچپن سے بدلتی جوانی نے مجھے بدلنے پر مجبور کردیا ۔ جہاں ساگر سے آجو بنے کا سفر شروع ہونے لگا میرا ضمیر مجھے جگانے لگا میں بہت کچھ خوبصورت محسوس کرنے لگا حانی کے آنکھوں سے مجھے زیادہ چلتن کی خوبصورتی دکھنے لگی اس کی باتوں سے زیادہ بولان کی خاموشی محسوس ہونے لگی، وطن کی تپتی دھوپ میں قربان ہوتے شہزادوں کو محسوس کرنے لگا، جو اپنے آج کو میرے آنے والے کل کو قربان کرنے چلے ہیں تو کیوں نا میں اپنے قلم کا رخ ان کی طرف کروں۔

انہی خیالوں کیساتھ ہی ساگر سے آجو کے سفر میں چلنے لگا اس سفر میں زندگی بھی بدلنے لگی ماضی کی شاعریاں عحیب لگنے لگیں یہ سفر خوبصورت ہونے لگا قلم کی زبان سے کبھی میں کسی کو حق کی راہ پر چلنے کا اشارہ دیتا گیا ان کی خامیوں کو دکھانے لگا تو کبھی کسی وطن ذادے کی سختی سوریوں کو بیان کرنے لگا کبھی عائشہ کی مہر مجھے بولان کی شکل میں دیکھنے کو ملی تو کبھی چلتن جیسی حوصلہ اماں یاسمین کی شکل میں دیکھنے لگی تو کبھی فریدہ کی آنکھوں میں راشد کا انتظار دیکھنے کو ملا تو کبھی مجھے کبھی کسی تصویر میں خشک ہونٹوں میں پیوست لفظ آجو دیکھنے لگا جہاں ساگر سے آجو بنتے سفر میں لفظ آجو نے مجھے بلکل بدل دیا ہر وقت خود کو اس لفظ کا قرضدار سمجھتا رہونگا کیونکہ یہ لفظ ہی ایسا ہیکہ اس کی گہرائی کو سوچتے سوچتے میں حیران رہتا ہوں کیونکہ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ دنیا میں ہر شہ آجوئی کے بنا نا مکمل ہے ، چاہئے وہ کسی انسان کی شکل میں یا پنجرے میں قید خوبصورت ہلبل ہو یا کسی سرکس میں قید خوبصورت حرنی کی ہو حرنی جو خوبصورت آنکھوں کیساتھ کچھ ہی دیر میں ایک بڑا سفر تہہ کر کے ہماری نظروں سے آجو ہوتی ہے ایسا ایک شیر جنگل کی آجوئی کو یاد کر کے سرکس میں آنسو بہانے لگتا ہے میں بھی ساگر سے آجو کے سفر کو محسوس کر کے سوچتا ہوں کل جب میں ساگر تھا تو میں پنجرے میں قید بلبل جیسا تھا جہاں کسی کی غلامی ہی میری زندگی تھی جہاں میرا وجود بھی مجھ پر ایک بوجھ تھا مگر جب میں اس پنجرے کو توڑ کر آزاد ہوا تو کھوکھلے ساگر سے کندن جیسا آجو بننے لگا، جہاں وطن کی خوبصوتی مجھے محسوس ہونے لگی جہاں دوستوں کی مسکراہٹ مجھے اپنے پن کا احساس دینے لگا ماؤں بہنوں کی پکار مجھے محسوس ہونے لگی اپنوں میں چھپے غیروں کا فرق دکھنے لگا میرا قلم میرا ساتھ دینے لگا قلم کی روانگی خوبصورت ہونے لگی حقیقی دوست ملتے گئے بولان مکہ جیسے لگنے لگا جو میرے وجود میں گھر کرنے لگا مجھے احساس ہونے لگا کہ اگر یہ قلم کسی دلربا کی خوبصورت آنکھوں کی تعریف کر سکتا ہے تو مکہ جیسے بولان کا درد کیوں بیان نہیں کر سکتا؟

جب کبھی بھی میں دلربا کی یاد میں قلم اٹھا کر کچھ تحریر کرنا چاہوں تو ماؤں بہنوں کی بےبسی وہ شال کی سڑکوں کی چیخ و پکار جہاں راشد حسین سمیت ہزاروں فرزندوں کی بازیابی کیلئے جہدوجہد کرتے ہوئے معصوم بچے اپنی آنکھوں میں پیاروں کی امید لے کر دکھائی دیتے ہیں جن کا پرسان حال تو کوئی نہیں مگر وہ پھر بھی دئے جلائے بیٹھے ہیں۔ ایسے ہی کبھی ریحان سے شادوست بنے والے فرزندوں کی مہر مجھے یاد آنے لگتی ہے تب میں بلکل ہی بدل جاتا ہوں جہاں حقیقی عشق کی کتاب آنکھوں کے سامنے کھل جاتاہے جہاں داستان رقم کرنے والوں کی داستان سامنے آتے ہی لفظ خود بہ خود قلم کی روانی میں آنسو کی طرح بہنے لگتے ہیں لفظ ساگر بھی آجو کا ساتھ دینے لگتے ہیں۔

کہوکا تینا ضمیرے پٹہ
اے حملی آ خمیرے پٹہ

نا خنک پیہن تو داخہ الور
تینے ٹی نوری نصیرے پٹہ

نے مزل ئسکا نا دے او سدھا
امو نی رہبر امیرے پٹہ

دا شاعری تا دَرنگ کُمبٹ
دَڑنگ رژن آ بصیرے پٹہ

ہراڑے تینا تا مہرک ایسر
اموڑے ماما قدیرے پٹہ

دا مون آ نیمروچ اٹی او سنگت
بئے بخت ئنا نی لِکیرے پٹہ

جہانے بروے کہ خمپروس ہچ
چراغ ارف ان بشیرے پٹہ

شبیرسے ٹی مرید ڈکوک
مرید سے ٹی شبیرے پٹہ


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں