بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے بلوچ مسنگ پرسنز ڈے کی مناسبت سے جاری کردہ اپنے ایک بیان میں 8 جون کو احتجاج و آگاہی مہم کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں پاکستانی فورسز اور انٹیلی جنس اداروں کی جانب سے طلباء، سیاسی کارکنان، اساتذہ، ادیب، وکلاء و ڈاکٹر نیز انسانی حقوق کے کارکنان سمیت تمام طبقے ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی جبری گمشدگیاں اور انہیں سالہاں سال قید و بند کرنے کے باعث پچھلے دو دہائیوں سے بلوچستان میں سنگین انسانی المیہ نے جنم لیا ہے جو اس خطے میں سب سے بڑا انسانی بحران ہے۔ جس کا اظہار بلوچ لاپتہ افراد کے خاندانوں کے لواحقین کے آئے دن کے روڈوں پر چیختے و چلاتے اور دل دہلا دینے والے مناظر سے ہوتا ہے مگر بلوچستان میں اس سنگین اور ہولناک بحران پر اب تک خطے کے ممالک، انسانی حقوق کے دعوے دار اور خاص کر عالمی برادری کا رویہ انسانی اقتدار کے مکمل منافی اور اس جبر کو تقویت دینے کا باعث بنا ہے۔ اگر لاپتہ افراد کے سنگین بحران اور بلوچستان میں سیاسی و انسانی حقوق کے کارکنان سمیت طلباء و طالبات اور مختلف شعبے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی جبری گمشدگی کا سلسلہ اسی تسلسل کے ساتھ جاری رہا تو مستقبل قریب میں اس کے موجودہ حالات سے بھی بدترین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ کسی انسان کو جبری طور پر گمشدہ کرنا پاکستان کے اپنے آئین اور بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے مگر پاکستانی ریاست اس سنگین غیر انسانی عمل کا کھلم کھلا طور پر حصہ ہے اور دنیا پر یہ روز روشن کی طرح واضح ہے جبکہ پاکستان کے تمام سیاسی جماعتیں، میڈیا اور آئینی طور پر سب سے منظم ادارہ عدلیہ بھی اس سنگین جرم کی خاموش حمایتی ہیں۔
ترجمان نے لاپتہ افراد کے سنگین بحران پر مزید کہا کہ بلوچستان میں سیاسی اور انسانی حقوق کے کارکنان کی جبری گمشدگیاں آج کا المیہ نہیں بلکہ بلوچستان میں جب بھی سیاسی آوازوں کو دبانے کی منصوبہ بندی ہوئی ہے اس میں سب سے پہلے پاکستانی ریاست نے سیاسی لوگوں کو جبری طور پر گمشدگی کی پالیسی اپنائی ہے۔ 70ء کی مزاحمتی تحریک کے دوران قوم پرست رہنماء عطااللہ مینگل کو خاموش کرانے کیلئے ان کے بیٹے اسد اللہ مینگل اور ان کے ایک ساتھی احمد شاہ کو 6 فروری 1976 کو لاپتہ کر دیا گیا تھا جس کا آج تک کسی کو بھی پتہ نہیں، جبکہ حالیہ مزاحمتی تحریک کے آغاز کے ساتھ ہی اس ریاست نے لوگوں کے اندر خوف پیدا کرنے اور سیاسی کارکنان کو دبانے کیلئے جبری گمشدگی کی پالیسی اختیار کی جو آج بھی بدستور شدت کے ساتھ جاری ہے۔ اس وقت تک بلوچستان میں شاہد ہی کوئی ایسا گھر ہو جہاں کے خاندان کا کوئی ممبر پاکستانی سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں گمشدگی کی لسٹ میں شامل نہیں رہا ہو۔ بلوچستان میں پچھلے کچھ سالوں سے جبری طور پر لاپتہ افراد کے خاندان والوں کی سرے بازار آہ و فریاد سے اس مسئلے کی سنگنیت کا احساس دلاتے ہیں۔ جبکہ ریاست کی اسی پالیسی کے تحت بی ایس او جیسے طلباء تنظیم کے سینکڑوں کارکنان کو بھی جبری طور پر گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا ہے جس میں تنظیم کے قیادت سے لیکر عام ممبران تک شامل ہیں جس میں درجنوں کارکنان کی مسخ شدہ لاشیں بھی برآمد ہوچکی ہیں۔
بی ایس او آزاد کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ لاپتہ افراد کے اس سنگین مسئلے کو اجاگر کرنے، اور اجتماعی طور پر آواز اُٹھانے کے لیے تنظیم نے 2017 میں 8 جون کو بطور بلوچ مسنگ پرسنز ڈے منانے کا فیصلہ کیا تھا جسے ہر سال تسلسل کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ اس دن کو قومی سطح پر ایک دن منانے کا بنیادی مقصد بلوچ لاپتہ افراد کے سنگین مسئلے کو اجتماعی طور اجاگر کرنا ہے۔ جس میں وہ لاپتہ افراد بھی شامل ہے جو سالہاں سال سے لاپتہ ہے جن کے کیسز دب چکے ہیں یا وہ خاندان جو معاشی یا سماجی مجبوریوں کے تحت اپنے پیاروں کے کیسز کو سامنے لانے سے قاصر ہے، تنظیم بلوچ مِسنگ پرسنز ڈے کے تحت ان تمام کیسز کو اجاگر کریگی۔ جبکہ آج سے بارہ سال قبل یعنی 8 جون 2009ء کو تنظیمی وائس چیئرمین سنگت زاکر مجید سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں لاپتہ ہوا تھا جس کا آج تک نظیم اور خاندان کو نہیں معلومات فراہم نہیں کیے گئے۔
ترجمان نے بلوچ عوام سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اس دن کو تمام لاپتہ افراد کے مشترکہ درد اور اذیت کو بطور قوم ایک دن محسوس کرنے اپنی اجتماعیت کا مظاہرہ کرنا ہوگا تاکہ ہم اس دنیا میں منظم طریقے سے بلوچ لاپتہ افراد کے کیس کو پیش کرنے کے ساتھ ساتھ بنا کسی تفریق کے تمام لاپتہ افراد جن میں بچے خواتین بزرگ نوجوان سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے عام لوگوں تک سب کیلئے اجتماعی طور پر آواز اٹھائیں۔ جبکہ بلوچ مسنگ پرسنز ڈے کی مناسبت سے آگاہی مہم چلانے کے ساتھ مختلف طریقوں سے احتجاج ریکارڈ کی جائیں گی۔