بارڈر ٹریڈ یونین کی نومنتخب کابینہ اور کور کمیٹی کے عہدیدار اور ممبران کی حلف برداری کے سلسلے میں ایک تقریب سرکٹ ہاؤس تربت کے ہال میں منعقد ہوئی جس میں آل پارٹیز سمیت مختلف سیاسی جماعتوں اور انجمن تاجران کے رہنماء شریک رہیں۔
حلف برداری سے قبل تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بارڈر ٹریڈ یونین کے صدر اسلم شمبے زئی نے کہا کہ یہ ایک عارضی فورم نہیں بلکہ دائمی تحریک ہے، ھم بارڈر ٹریڈ کے لیے اس پلیٹ فارم پر مستقل جدوجہد کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے متعدد بار اعلیٰ ترین فورم پر سوال اٹھاکر کہا ہے کہ ایرانی بارڈر پاکستان کا اکیلا بارڈر نہیں، بھارت کی چیزیں تربت میں دستیاب ہیں، مگر افسوس کی بات ہے کہ ہمیں اپنی زمین پر کاروبار کی اجازت نہیں دی جاتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تعلیم، صحت اور روزگار کی فراہمی سرکار کی بنیادی ذمہ داری ہے مگر ہمیں یہ تمام سہولتیں مہیا نہیں کی جاتی ہیں، ہمارے لیے روزگار کا ذریعہ صرف یہی ایک بارڈر ٹریڈ رہ گیا ہے لیکن اس پر بھی اب گرفت اور بندشیں لگائی گئی ہیں۔ قانونی دائرے میں رہ کر ہم سب کو اپنا قانونی حقوق طلب کرنا چاہیےں اور اس کے لیے آواز اٹھانا چاہیے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آل پارٹیز کیچ کے کنوینئر غلام یاسین بلوچ نے کہا کہ ٹریڈ یونین کا قیام احسن فیصلہ ہے، اس پلیٹ فارم کو مزید منظم بنا کر اتحاد اور یکجہتی کے ساتھ کام کرنا چاہیے، آپس میں اتفاق اور برداشت لازمی ہے، بارڈر کا مسلہ صرف ان لوگوں کا مسئلہ نہیں جن کے پاس تیل بردار گاڑیاں ہیں اور وہ کاروبار کررہے ہیں بلکہ کیچ کی 9 لاکھ آبادی کے علاوہ یہ پوری بلوچستان کے لوگوں کا مسئلہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سرحدیں صرف ایران سے نہیں ملتی ہیں بلکہ بھارت، چائنا اور افغانستان کے ساتھ سرحدیں بھی ملتی ہیں مگر ہم نے کبھی نہیں سنا کہ بھارت کے ساتھ تجارتی چپقلش پیدا ہوئی یا چائنا کے ساتھ ایسا کچھ ہوا بارڈر پر گرفت صرف بلوچوں کے لیے ہوتا ہے حالانکہ ایران بظاہر ہمارا دوست ملک ہے، دنیا میں جن ممالک کی سرحدیں ایک دوسرے سے ملتی ہیں وہاں آزادانہ کاروبار اور بارڈر ٹریڈ ہوتا ہے، کہیں پہ فنسنگ یا بارڈر ٹریڈ پر پابندی نہیں ہے، اگر بارڈر ٹریڈ غیر قانونی عمل ہے تو یہ عمل بھارت اور چائنا بارڈر کے ساتھ بھی کیا جائے، صرف بلوچوں کو اپنی ہی بارڈر پر تنگ نہ کیا جائے۔
ہمیں کہا جاتا ہے کہ ایران پر بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے بارڈر ٹریڈ میں سختی کی جاتی ہے لیکن یہ حقیقت نہیں ہے بلکہ مقصد صرف بلوچوں سے ان کا روزگار چھیننا ہے، دنیا میں بارڈر ٹریڈ کے جو اصول و ضوابط ہیں وہ یہاں ایران اور بلوچستان بارڈر پر بھی اپلائی کی جائیں تاکہ ہمارے لوگ بھی بارڈر ٹریڈ سے مستفید ہوسکیں۔
انہوں نے کہا کہ بارڈر ٹریڈ یونین کو مزید منظم اور فعال بنانے کی اشد ضرورت ہے اس کو تقویت دیا جائے تاکہ بارڈر ٹریڈ کا تحفظ ممکن ہوسکے اور آواز زیادہ بلند ہوسکے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بی این پی عوامی کے مرکزی رہنما خلیل تگرانی نے کہا کہ عبدوی اور کلگ وکائی بارڈر ایریا ہیں جہاں سے میرا تعلق ہے، وکائی پر سیکیورٹی فورسز نے مورچے بنائے ہیں اور وہ لوگوں کو سخت تنگ کرتے ہیں، عام لوگ جو تیل کے کاروبار سے منسلک بھی نہیں بلکہ اپنے رشتہ داروں کی عیادت اور حال پرسی کو جاتے ہیں ان کو بھی بے جا تنگ کیا جاتا ہے اور کئی دنوں تک ان کو روک کر جانے نہیں دیا جاتا، کچھ ایسے لوگ ہیں جو معمولی کاروبار کی خاطر پورے بارڈر پر قابض ہیں، ان کی وجہ سے عام لوگ اذیت کا شکار ہیں، یہ عمل کسی طور پر درست نہیں۔
تقریب سے تربت سول سوسائٹی کے ممبر اور بی این پی عوامی کے ضلعی صدر کامریڈ ظریف زدگ بلوچ، نیشنل پارٹی کے قائم مقام ضلعی صدر طارق بابل، انجمن تاجران کے رہنماء اور موبائل ایسوسی ایشن کے صدر شاہ دوست دشتی اور یونین کے سنیئر نائب صدر میر شاہ داد دشتی، نائب صدر پزیر بشیر، ڈپٹی سیکرٹری نور احمد و دیگر نے بھی خطاب کیا۔