ایک عظیم فلسفی، سید ظہور شاہ ہاشمی
تحریر: میرین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
فلسفہ وہ علم ہے، جو اشیاء کی ماہیت و حقیقت اور انکے وجود کے اسباب و عمل پر بحث کرتا ہے علم و حکومت یا تو نظریہ،طریقہ استدلال بھی آپ کہہ سکتے ہیں اور اگر بات فلسفہ کی ہے تو میں کچھ کہہ نہیں سکتا جس میں زبان ساکت اور جسم پسینے سے شرابور ہونے لگتا ہے اور جہاں تک سید ظہور شاہ ہاشمی کی بات ہے تو وہ خود ایک کتاب ہے اور اس میں میں کیا لکھ سکتا اور کیا کہہ سکتا کیونکہ سید اس درخت کا پھل ہے اور گُلاب کا وہ پھول ہے جس کی ثمر اور جسکی خوشبو کی لہر ہر نسل تک پروان چڑھتا رہا ہے اور وہی درخت ، جسکے سائے تلے آج ہم بیٹھے ہوئے ہیں۔
سید ظہور شاہ ہاشی نے مادر وطن بلوچستان کیلئے کوئی بھی کسر نہ چھوڑا اور آج تاریخ بھی انکا قرض دار ٹہر چکا ہے ، اس لیئے میں کہتا ہوں کہ تاریخ ہمیشہ عظیم رہنماؤں کو سُنہرے الفاظ میں یاد کرتا ہے کیونکہ زندہ ہونے کی سب سے بڑی پہچان انکی زبان ہوتی ہے، جس میں سید شاہ نے کوئی بھی کسر نہ چھوڑا اسیلئے ہم کہتے ہیں کہ سید ایک کتاب ہے جس میں پڑھنے اور سمجھنے کیلئے سالوں سال لگے رہتے ہیں اور دوسرے پہلو میں ہم ایک چھوٹی سی نظر سید ظہور شاہ ہاشمی کی زندگی پر جاتے ہیں، جس میں انہوں نے بے مثال قربانیاں دی ہیں۔
سید ظہور شاہ ہاشمی نے 21 اپریل 1926 کو اپنے آبائی علاقے گوادر میں واجہ سید محمد شاہ کے گھر میں آنکھ کھولا اور اُنہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے ہی گھر سے حاصل کی اور فارسی اپنے والد سے ہی سیکھا اور عربی پڑھنے کیلئے مولوی صاحب کے پاس گئے، ودسری رکھ میں اُنکے چچا خود بھی ایک استاد تھے۔ سید ظہور شاہ ہاشمی خود ایک قابل اسٹوڈنٹ تھے اور وہ مزید پڑھنا چاہتا تھا کیونکہ پڑھائی میں بہت دلچسپی تھا لیکن بدقسمتی سے گوادر میں سہولیات فراہم نہیں تھے۔ اس لیئے وہ آگے پڑھ نہیں سکا۔
سید ظہور شاہ ہاشمی بلوچی شاعروں میں ایک نامور شاعر کے نام سے جانے جاتے ہیں اور وہ نہ صرف بلوچی زبان میں قابل احترام بلکہ ارائینگ دو اور انگریزی میں بھی اچھی طرح سے علم میں مہارت حاصل تھا سید ظہور شاہ ہاشمی نے بلوچی زبان کو بہتر اور اچھے انداز سے نبھانے میں کوئی بھی کسر نہ چھوڑا، انہوں نے اپنی پوری زندگی بلوچی زبان میں صرف کیا دن رات بلوچی زبان کی کاموں میں مصروف تھا اسی طرح انسان کو زندہ ہونے کیلئے سانس ضروری ہے تو اسی طرح ایک قوم کو ایک زبان کی ضروت ہوتی ہے اور زبان کے بغیر اپنی قوم کو زندہ برقرار رکھنا نا ممکن ہے اسی طرح سید ظہور شاہ ہاشمی خوب کہتے ہیں ” راجے کہ بہ بیت گنگ نہ مانیت نہ مانیت، مانیت پہ ادارکے بزاں زندگءَ مردار ” زبان قوم کی پرچھائی ہوتی ہے جس قوم نے اپنا زبان کھو دیا ہے آج وہ تحاریک میں نظر نہیں آتی ہیں کیونکہ وہ مٹ گئے ہیں اور جس قوم نے اپنا زبان کھو دیا ہے آج وہ دنیا کے نقشے میں کوئی نام و نشان نہیں رکھتے،کیونکہ ہر قوم کی پہچان انکی زبان اور کلچر سے جُوڑی جاتی ہے سید ظہور شاہ ھاشمی بلوچی زبان کے ایک اچھے رائٹر لچّہ کار ، ندکار، زبان کے جاننے والا اور شوھازکار تھے۔ سید ظہور شاہ ھاشمی کے کچھ لکھے ہوئے مواد ہیں جس میں سِستگیں دستونک (رم) انگر ءُ تْرونگل(لچہ) بْرتکگیں بیر (لچہ) تْرامپکنیں تْرمپ (لچہ)بلوچی بنگیجی (رم) بلوچی اردو بول چال بلوچی سْیاھگ ءِ راست نبیس اور جُز عمّ بلوچی (رم) میر گند (رم) نازک (ناول) بلوچی زبان و ادب کی تاریخ اور سِچکانیں سسّا (لچہ) شکّلیں شھجو (لچہ) سید نمدی (رم) شھلچّہ کار (رم) چکّاس (رم) بلوچی دربر (رم) بے سرگال (رم) گمے تالان کناں اور گاریں کلدار (رم) زوت گِر ءُ دیر ھِل (رم) بلوچی دلپسندیں لچّہ کاری اور گسدگْوار (لچّہ) سَیَد گنج اور دوسری پہلو میں سید ظہور شاہ ہاشمی نے بلوچی زبان کی پہلی لغت (سید گنج) ترتیب دی۔
سید ظہور شاہ ہاشمی 4 مارچ 1978 کو کراچی میں انتقال پاگئے اور انکو آبائی قبرستان کراچی میوہ شاہ میں سپرد خاک کر دیا گیا اور تاریخ میں آج تک اُنہیں سُنہرے الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں