آسیب زدہ سراب بحریہ ٹاؤن دیوار – اکبر عاجز

147

آسیب زدہ سراب بحریہ ٹاؤن دیوار

تحریر: اکبر عاجز

دی بلوچستان پوسٹ

سنا تھا بزرگوں سے کہ انکے بڑوں کے زمانے میں اس روئے زمین کے ایک چھوٹے سے بیاباں پر تین چار سال سورج آگ برساتی رہی، زمین تڑپتی رہی، پیاس بڑھتی رہی آسمان رو نہ سکا برسات برس نہ سکی، پرندوں کی چہچہاہٹ ماند پڑ گئی چرندوں کے میدانوں پر اچھلنے کودنے کے دن سوکھے گھاس کے نشانات کی طرح مٹنے لگے ، زندگی جیسے تھک ہار سی گئی رہنے کو ایک آہ لگی، کوچ سبھی رفتہ رفتہ کرنے لگے، چرند رہے نہ پرند رہے کہیں دور مال مویشیوں کو سبز چارے کے سوکھے آس پہ سیر کرانا گھونٹ گھونٹ کے حساب سے پانی کے قطرے قطرے کو گنتے جانا اب شاید مشکل ہوتی جارہی تھی چند افراد کے کنبے پر مشتمل خانہ بدوش اہل وعیال کی اب امید برسنے کی ہمت جواب دینے لگی۔ وہ اس بیاباں سے بہتے ہوئے نئے آب جوہر پر آنکھوں کی جلتی روشنی میں پہنچتے ٹھنڈک میں اگتے سبزہ زار کی تلاش میں رخت سفر باندھنے لگے کہ جہاں زندگی کی رمق رگوں میں دوڑتی رہے، چہرے کی اداسی میں خوشی کی بہار رہے، بس اتنی سی جان میں زندگی کی امنگ باقی رہے، جینے کی مشق جاری و ساری رہے، یوں وقت ساتھ رہے نہ رہے حالات کٹھن کتنے کیوں نہ رہے سانس لینا تو فقط زندہ ہونے کی علامت ہے زندگی ضمانت ہے اگلی زندگی میں منتقل ہونے کی ارتقاء کی جاری مزاحمت ہے بلند و بالا پہاڑوں سے بہتے پانی میں اڑتی لہروں کی تباہی مچاتی سیلابی ریلوں میں موسم کی رعنائیوں سے جبر کے طوفانوں میں جنگل کے وحشیوں سے خونخوار درندوں کی چیر پھاڑ میں بڑی سے بڑی طاقت کے آگے گھٹنےٹیک دینے سے ظالم کی بڑائی کے سامنے سر جھکانے سے آسانی سے مٹ جانے سے، ہار ماننے سے انکار رہے انکار رہے۔

کارواں خانہ بدوشی یوں چلتی رہی ، جیسے زندگی کی تمناء اڑتی ریت میں کانوں میں بجتی سیٹی کی آواز کو گًم کرنے نکلی ہو موسم کی سختیوں کو جھیلنے سے تجربات سفر کے چار طبق روشن کرنے لگی میدانوں کے دور دور تک پھیلے وسعتوں کی کھوج میں نگاہیں مستقبل کی فکر اندیشی کی روش پر چل پڑ نے لگی، تپتی ریتوں پر باری باری پڑتے پیروں کے آگے بڑھنے کے نشانات عدل و انصاف کے اصولوں کو وضع کرنے لگی، اعلیٰ جہد کو عملی جرأت کو منزل مقصود میں دوا دعا اور سینکڑوں ریوڑ کی بھوک و پیاس مٹانے کارواں کو سمت آب سبز کی ایک نئی خوشحالی کی طرف قدم بڑھاتے گئے راستے میں مرجھائے ہونٹوں جیسی ندی کے بنے کھڈے گھڑوں میں کھڑکتی دھوپ کے پڑتی شعاوں میں چمک دمک جمع پانی پر سوکھے حلق کو ضرورت بوند کے احترام میں رکتے ، جیسے خشک درختوں کے سائے تلے گھاس کے بچھے چھوٹے چھوٹے دستر خوانوں کو مہمان نوازی کے شرف سے نوازتے جاتے کچھ دن مسافت بے آرامی پر بچھے سبزہ زار قالینوں کے بڑھتے قطار ایک شاندار استقبال کے لئے بے چین نکلی، جھنڈ در جھنڈ درختوں کے آثار میں پرندوں کے ہنسی مذاق میں لڑتے کودتےشوروغل کی آواز میں جیسے پڑاؤ ڈالنے کی نوید سنائی دینے لگی شفاف بہتے پانی کی آڑی ترچھی لکیریں پھوٹتے چشموں سے خزانہ بہار کی خوشخبری بن کر گدانوں کو سجانے کی دعوت قیام دے رہے تھے۔

زندگی کے سفر ایام میں عارضی پڑاؤ کبھی مستقل منزل کی قیام گاہ نہیں رہی یہ ہمیشہ آگے بڑھتی رہی ہے یہ اپنی بقاء کو قائم رکھتے ہوئے ہمیشہ آگے چلتی ہے، یہ جہد مسلسل ہے تاریخ کا تسلسل ہے حاکم وقت طاقت کی مستی میں ظلم جتنا بھی کرلے وقت نے ٹھرنا کہیں نہیں اس لئے کہتے ہیں کہ ظلم تو ظلم ہے بڑھ جائے تو مٹ جاتی ہے، ماضی قریب میں کراچی شہر میں ایک بے تکی آواز کا جادو جگانے والے جب انگلی کا ایک اشارہ کرتا تھا تو لاکھوں کے مجمعے میں سناٹا چھا جاتی تھی سنا ہے یہ بے سرا گولیاں آج کل لندن کے فٹ پاتھوں پر قوالیاں گا رہا ہے ، تاریخ گھڑی کے سوئیوں کی طرح گھومتا ہے آج کے اس سرمایہ دارانہ دور کے حرص و ہوس کی بدترین مثال بحریہ ٹاؤن ہے جس کا مالک اپنی دولت کے غرور میں قانون کو اس مکڑی کے جالے کی طرح ثابت کرچکا ہے کہ جس میں کمزور و لاچار مخلوق تو آکر پھنس جاتے ہیں اور زور آور اسے چیر پھاڑ کر نکل جاتے ہیں شاہد اس لئے آج اس سرمائے کی طاقت نے کئی پارسا بنے عوامی حقوق کے پاسداروں کو بھی بے نقاب کر دیا ہے چاہے ان میں سماج کے غمخوار نیتاؤں کی قطار ہو حق و سچائی کے ڈھنڈورا پیٹتے تیز رفتاری کے دعویدار مداری میڈیا ہوں ریاست کے انتظامی امور کے کرتا دھرتا ہوں سب کے ظاہری دعووں کی نفی کرتے ہوئے ہزاروں مثالوں میں سے ایک نیا اعلٰی مثال بن کر عوام میں ظہور پذیر ہوا کہتے ہیں کہ دیوار چین کی تعمیر میں صدیاں بیت گئیں بحریہ ٹاؤن کی بے حساب کتاب کے بنتی دیوار کئی سالوں کے ہندسوں کو عبور کرتے ہوئے سندھ کے تاریخی قلعے رنی کوٹ کی کئی صدیوں تک بنے لمبی دیوار کے ریکارڈ کو توڑنے کا اعزاز اپنے نام حاصل کرچکی ہے دیگر الفاظ میں یوں کہا جائے کہ سندھ کی قدیم تہذیب و تمدن جو ہزاروں سالوں پہ محیط ہوکر بدلتے حالات میں بھی اپنے رنگ کو لئے محو سفر ہے لیکن افسوس یہ رنی کوٹ کے مقابل بنتا اس سے بڑی دیوار اس خطے کو بیرونی حملہ آوروں سے بچانے کے لئے نہیں ہے بلکہ سندھ کے ننگ و ناموس قدیم ثقافت اور مستقبل قریب میں میں اسکی جغرافیائی ہسٹری کو بدلنے کی جانب جتنی تیزی اتنی خاموشی سے گامزن ہے سندھ کی زمین سندھ کے وسائل خصوصاََ بنیادی ضروریات زندگی پانی گیس بجلی کی بلا روک ٹوک فراہمی خود بہت بڑا سوالیہ نشان ہے سندھ صوبے کے اکثر علاقے اور کراچی شہر پانی کی کمی کو کئی سالوں سے گریہ زاری کررہا ہے۔

وہاں یہ حکمران کئی دہائیوں سے صوبے کے عوام کی پیاس بجھانے میں ناکام رہے وہی سرمائے کی طاقت ون مین آل ان ون شو کی ون سوسائٹی کو نہر سوئز کی طرح بے تحاشہ پانی کی فراہمی سہولت کاری کے حکمرانی طبقات کے مفادات کی بدترین نشاندہی ہے پاکستانی بکاؤ میڈیا چند دو چار کے علاوہ سندھ کے کسی دور دراز دیہی علاقے سے گدھا گاڑی کے نہر میں گرنے کی نیوز کو بریکنگ نیوز بناکر بڑی اتار چڑھاؤ سے بیان کر لیتا ہے لیکن اس ریکارڈ توڑ وسائل کی بے دریغ لوٹ مار کراچی کے عوام کی حق تلفی پر خود ساختہ بنے پارسا کے بنائے دیوار چین پر لبوں کو سی جاتے ہیں سونے کے سکوں کی چمک بینائی لے جاتی ہے سوسائٹی میں بنے بنگلوز کی کشش اور پلاٹ کے قیمت کی لالچ ان سب کو گونگہ بہرا اندھا کر چکی ہے گلے پھاڑ پھاڑ کر لفظوں کو گھوڑے کی رفتار میں دوڑانے والے عوام کے معیار زندگی پر سہولتوں کے فقدان پر مگرمچھ کے آنسو بہانے والے نہ جانے کن اداؤں میں ڈوب چکے ہیں وہ دودھ کی ملاوٹ ثابت کرنے والے بریانی میں مصالحہ تیز ہونے پر پوری کیمرہ ٹیم کو لانے والے انتظامی امور کے ساتھ چھاپے مارنے اور ایک دن کے لئے کاروبار کو سیل کرنے کے ڈرامے بڑے دلچسپ ہوتے ہیں پر ملاوٹ کم نہیں ہوتی وہ سارے نڈر دلیر صحافی شاہد یہاں کے اسرائیلی عزائم کے بڑھتے مظالم کو پس پشت ڈال کر مظلوموں کے حقیقی دادرسی کرنے کے لئے چوری چھپے فلسطین پہنچ چکے ہو تاکہ وہاں کوریج کر تے ہوئے ظالم اسرائیلیوں کے ہر توپ سے نکلنے والی گولہ بارود کی تمام ویڈیو چھاپہ مار کاروائی کرتے ہوئے نقل میں لا سکے اور موقع ملتے ہی سرکار سے ایواڈ کیش وغیرہ بلاجھجک اگلی صفوں میں بیٹھ کر پرسنل تعلقات کی مسکراہٹوں سمیت وصولی کرلی جائے۔

شاید اب وہ الفاظ نہ رہے جس میں درد ہو آواز وہ نہ رہی جس میں فریاد ہو ، وہ زبان نہ رہی جس میں بول ہو، وہ کان نہ رہے جو سن سکے وہ آنکھ نہ رہی جو دیکھ سکے بحریہ ٹاؤن کے زر خرید مسلح غنڈوں نے سرکار کی پروٹوکول میں ہیوی مشینری کے لاؤلشکر کے ساتھ صدیوں سے آباد نہتے گوٹھ کے ان واسیوں پر حملہ آور ہوئے جو اپنے حق کے لئے صدائے احتجاج بلند کررہے تھے عجیب یہ کہانی تھی ظلم کی ایک داستان تھی سامنے مسلح نجی ملیشیاء جدید وائرلیس سسٹم اردگرد برق رفتاری سمیٹے نئی گاڑیوں میں سوار جیسے بلیک واٹر کی تربیت یافتہ کمانڈوز کسی ملک کی سرزمین فتح کرنے بھوکے کتوں کی طرح چڑھ دوڑے سامنے نہتے چند مقامی اصل وارث جن میں کچھ اس بڑھتی طاقت کے بندوقوں کے آگے جسم و جان کے نظرانے بنے مگر اونچے پہاڑ کی طرح ثابت قدم رہے جیسے زمین کے اصل وارثوں سے انکی آباء و اجداد کے نام و نشان کو مٹاکر زمین ہتھیا لے جانا چاہتے ہیں معلوم نہیں کیا ربط ہے کہ ادھر نہتے معصوم گوٹھ واسیوںں پر تیر برسائے جارہے ہیں وہاں غزہ والوں پر آگ کے گولے داغے جارہے ہیں دونوں طرف ظالم زمین ہتھیانا چاہتے ہیں۔

چاہے ہر طرح جبر کے حربے آزمائے جائے جب یہ سب کچھ ہورہا تھا تو ویڈیو ریکارڈ کرنے والے نے ظلم کے خلاف لڑتے ہوئے زندگی کو فراموش کرنے والے سے کچھ پوچھا جس پر انور بلوچ نامی نوجوان نے جو ہاتھ میں ایک ڈنڈا لیئے پیدل ان گاڑیوں کو اسلحے سے لیس غنڈوں سمیت اپنی دھرتی ماں کے سینے سے ناپاک قدموں کو پیچھے دھکیلتے ہوئے اپنی قمیض سائیڈ سے اوپر کرتے ہوئے پیٹ پر لگے اس گولی کے لگنے سے بنے سوراخ کو دیکھاتے ہوئے جس بے پروائی سے بتارہا تھا کہ ہاں مجھے گولی لگی ہے سر میں لگے زخم سے جیسے بہتے ہوئے خون کی ندیاں بہہ رہی تھی کہا کہ نہیں معلوم یہ کیا چیز لگی ہے جیسے اسے اپنی جان سے کوئی الفت ہی نہ ہو خون سے تر آلود ہو زندگی کی کوئی پرواہ نہ ہو ایسا عشق جسے اپنی دھرتی ماں سے ہو وطن سے محبت شایان شان ہو وہاں ان سرمائے کے خود غرض لالچ کے دیوتا کو پہلی بار احساس ہوا ہوگا کہ ہر شے بھکاؤ مال نہیں ہر چیز کی قیمت لگائی نہیں جاسکتی کہ جسے خریدا جائے یہی حق کی سچائی ہے کہ جو قربانی بن کر کئی نام نہاد چہروں کے نقاب سے پردہ چاک کرجاتی ہے ظلم کے اندھیروں کو مٹانے جو دیئے خون سے روشن کئے جاتے ہیں ان کرنوں کی جھلک خوشبو کی مہک کی طرح ہر سو پھیل جاتی ہے جسے فضاء سے تحلیل کرنا ہوا کو تاریخ کے صفوں سے غائب کرنے کے مترادف ہوجاتی ہے۔

اسطرح کی وحشیانہ بربریت پر سندھ سمیت ملک کے ہر جگہ سے آواز حق بلند ہونا اور خصوصاََ کئی سیاسی و سماجی ترقی پسند ورکروں کا عملی میدان میں اترکر مسلسل احتجاج ریکارڈ کرنا گمناموں کو اصلیت کی پہچان کراتے ہوئے مظلوموں کو اپنے حق کے لئے کھڑے ہونے اور حق چھین کر لینے کی درس اعلیٰ ہے لیکن درحقیقت چند ایسے نام نہاد جو خود کو قوم دوست شمار کرتے ہیں جن کے پاس سوائے اپنے پرانے منجن بھیجنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کمزور اور طاقت کی اس جنگ کو مخصوص کلچر اور زبان تک محدود کرکے مظلوموں کی ہر اٹھنے والی آواز پر تقسیم کاری کے ضرب المثل بنے جذبات کی رو میں ایک ہی عینک لگائے ہوئے ہیں جبکہ طاقتور کی اپنی زبان ہوتی ہے مگر مظلوم کی اپنی کوئی زبان کوئی قوم نہیں ہوتی وہ صرف کمزور ہوتا ہے جسے طاقتور اپنے حرص و مفادات میں ہر وقت کچلنے کے لئے پر تولتا ہے جہاں جابر سرمایہ داروں کا ٹولہ ہو اور مظلوم بے سرو سامان ہو وہاں طبقاتی فرق سے انکار نہیں ہوسکتا سندھ میں سب سے زیادہ خود کو قوم پرست کہلوانے والے سندھ کے حقوق کے شہنشاہ اور سندھ صوبے کے کئی وزیر و گزیر سردار وڈیرے آج خود ہی ان قوم دوستی کے دعویداروں کی زد میں ہیں واضح حدبندی ان مختلف حب الوطنی کے جذبات سے سرشار طبقاتی مفادات میں بندھے ہر گرہ کو کھولتے جارہے ہیں لیکن ماننے کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں جس سے انکی مسلسل صرف مخصوص ایشو پر جذباتی عمل کبھی کبھار کا ہوکے رہ جاتی ہے یہ انتہائی ضروری ہو چکا ہے کہ عوامی ایشوز پر عوامی طرز عمل اپناکر تمام مظلوموں کو اکٹھا کیا جائے تاکہ مظلوموں کی تحریک علاقائی حدود سے بالا تر ہوکر گلی گلی نگر نگر ہر گاؤں ہر شہر تک موثر قوت بن کر طاقت کے وسیلوں کو سماج کے خدو خال سے نکال باہر کرسکے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں