ہمتِ بلوچ مددِ خدا – کوہ زاد

298

ہمتِ بلوچ مددِ خدا

تحریر: کوہ زاد

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ قوم اور کس بات کی وضاحت چاہتا ہے؟ میلوں دور سے کوئی آکر بلوچ قوم پر اتنی طاقت جما چکا ہے، اور اپنے استعماری طاقت سے بلوچ قوم جو بلوچستان اور اس کے بارڈر (وہ الگ بات ہے کہ یہ بارڈر غیرفطری اور بےبنیاد اور بلوچ قوم کےلئے ناقابل قبول ہے، لیکن یہ ان نا پختہ اور بےخبر بلوچوں کیلئے جو اپنے زاتی و انفرادی روزی روٹی کمانے واسطے کاروباری غرض سے مانتے ہیں) کے اصل وارث اور مالک ہیں پر حکمرانی کرتے ہوئے علاقے اور بارڈر کا نظام اپنے استعماری مفاد و حق میں چلاتا آرہا ہے قطع نظر کہ کتنے بلوچ معاشی قتل کا شکار ہوتے ہیں اور کتنے کے گھر کے چولہے بجھ جاتے ہیں۔ اگر کچھ بلوچ ایسا سوچتے ہیں کہ بات قانون کی ہے اور یہ نام نہاد محافظ اپنے قانونی زمہ داری نبھا رہے ہیں تو یہ ان کی بھول اور حماقت ہے۔ قانون تو یہاں اندھے کیلئے بھی ظاہر ہے کہ دور دور تک نظر نہیں آتا۔ حقیقت میں تو استعماری نظام میں قانون اور انصاف ڈھونڈنا یا ان کے وجود کا طلبگار رہنا بےوقوفی ہے، کیونکہ جیسا نوآبادیات میں مظلوم و محکوم چاہے ویسا کبھی ممکن نہیں مذکورہ نظام میں۔

چناچہ، قانونی اصول اور انصاف کے عدم موجودگی اور بحران کی دلیل دینے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ یہ صورتحال و کیفیت ہر یہاں رہنے والے کیلئے واضح ہے۔ لہذا، قانونی ذمہ داری کی تو بات بھی نہیں ہے، بلکہ بات یا مسئلہ یہ ہے کہ پنجاب کے لوگ ہمارے زمین اور بارڈر پہ یہ نظام کیوں چلا رہے ہیں اور وہ بھی غیرمنصفانہ اور غیرانسانی طریقے سے؟ ایک تو پنجاب سے ہیں، دوسری مذکورہ طریقہ اختیار کر کے۔ اسی فوج کے بارے میں کبھی آپ نے سنا ہے کہ اس نے پنجاب اور اسلام آباد میں ایسی بدمعاشی اور غنڈہ گردی کی ہو یا اپنے طاقت کے بل بوتے پر کسی انتظامی فیصلہ یا نظام میں مداخلت کیا ہو؟ نہیں۔ کیونکہ وہ وہاں نوآبادکار یا استعمار نہیں بلکہ وہاں کے باشندے ہیں۔ اسلیئے وہاں کے عوامی اختیارات میں کبھی مداخلت نہیں کرتے اور نہ ہی کر سکتے ہیں، اگرچہ ان میں ایک طبقہ آمرانہ طور پر ملک چلا رہا ہے لیکن نچلے طبقے کو جرت نہیں کہ وہ عوامی مینڈیٹ اور ان کی حیثیت کی تخریب کاری کرے۔ لہذا، یہی فوج جو اپنے علاقے میں صرف اپنے فوجی اختیارات اور فرائض انجام دینے تک محدود ہے تو ہم (بلوچوں) پر کیوں ناجائز طور پر حکمرانی کر رہا ہے! ہمارے کام کاج میں، ہمارے روزگار کے ذرائع میں، بلے بھی جیسے بھی ہوں سب ریاست کی بنیادی غفلت اور دانستہ و سوچی سمجھی لاپرواہی کی وجہ سے رونما ہوئے ہیں، کیوں رکاوٹ مداخلت اور پریشانی پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے؟ اس نے کیوں اتنے زلیل و خوار کی ہیں اس زمین اور بارڈر کے مالک و وارث بلوچوں کو؟ بلوچ اپنے ہی زمین و گھر میں اتنے بے بس اور لاچار کیوں ہیں آخر؟

کچھ بلوچ اس ریاست میں جمہوریت کی موجودگی پر یقین رکھتے ہیں اسے جمہوری ریاست تصور کرکےاس کے ساتھ رہنے پر مقبول ہیں، اور پھر اپنے ہی لانے والے گورنمنٹ اور قانون کے سامنے اتنے بےبس اور لاچار ہیں جیسے انہیں جمہوریت کا مطلب ہی نہیں پتا اور انہیں جمہوریت کے نام پر بےوقوف بنایا گیا ہے۔ اصل میں تو کوئی شک نہیں انہیں ایسا بنانے میں، چنانچہ جمہوریت بھی قانون اور انصاف کی طرح اس ریاست میں نہ ہونے کے برابر ہی ہے۔ تو وہ بلوچ کس سے ایک بہتر یا کس طرح کی نظام کیلئے امید رکھتے آرہے ہیں؟ وہ کس چیز کے انتظار میں بیٹھتے آرہے ہیں؟ آیا ان کےلئے کوئی فرشتہ اس نظام کو قدرتی طور پر تبدیل کرنے کیلئے آنے والی ہے؟ نہیں۔ کوئی فرشتہ نہ آنے والی ہے اور نہ ہی خدا خود آسمان سے آنے والا ہے۔ خدا اور فرشتے ایسی نظام کو تبدیل کرنے کیلئے نہیں آتے، بلکہ انسان کو خود کرنا ہوتا ہے اور کرتا آرہا ہے۔

چنانچہ، بلوچ عوام کو خود اپنے عوامی طاقت سے اس پنجابی استعمار و نوآبادکار فوج سے اختیار چھینا ہوگا۔ بلوچ اپنے زمین اور بارڈر کے مالک خود ہیں اور اس کے فیصلے بلوچ ہی کرینگے کہ بارڈر اور علاقے کا نظام کیسا ہونا چاہیے۔ پنجاب کے رہنے والے بلوچستان میں بطور استعمار و نوآبادکار بن کر بلوچ کے فیصلے کریں یہ بلوچ عوام کو منظور نہیں۔ لہذا، بلوچ اپنے عوامی طاقت سے اس سامراج و استعمار فوج سمیت ان کٹھ پتلی نام نہاد بلوچ پارلیمانی نمائندے اور کاسہ لیس ڈیتھ سکواڈ والوں کو بلوچستان سے نکال باہر کریں یا سزائے موت دے دیں۔ یہی بلوچ کی خوشحالی اور اس نوآبادیاتی نظام سے چھٹکارا ملنے کا ضامن ہوگا۔

مجھے بہت تعجب ہوتا ہے جب بھی میں یہ دیکھتا ہوں کہ لگ بھگ تین سے چہار ہزار ڈیزل کش گاڑیاں اور ان میں تقریبا دو گنا لوگ یعنی چھ سے آٹھ ہزار کے قریب لوگ بارڈر پہ زلیل و خوار ہو کر اپنے موبائل فونز سے اپنے حالات و صورتحال کے اوپر ویڈیوز بناتے ہیں، اپنے حالات کی آئے روز نمائش کرتے ہیں، لیکن یہی تعداد اگر ہمت و جرت کر کے بارڈر پہ بیٹھے ہوئے استعماری فوج کے دس سے پندرہ کی تعداد پر عوامی طاقت سے حملہ کریں تو بارڈر کا اختیار اپنے ہاتھ میں لے سکتے ہیں۔ یا یہی تعداد اگر علاقے کے کٹھ پتلی وزراء سمیت فوجی کیمس پر حملہ بول دیں تو جو بھی مطالبات ہونگے وہ ضرور پورا ہونگے۔ اگر اس مکار و استعمار فوج کو مکمل طور پر شکست دے کر بلوچستان سے نکال باہر کرنے کیلئے یہ کاروباری لوگ خود کو قابل نہیں سمجھتے تو اپنے بارڈر کے اختیار کیلئے عزم کرکے اپنا یہ حق تو لے سکتے ہیں۔

لہذا، ان متعلقہ کاروباری طبقہ جو ایک بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں بارڈر کے نام نہاد محافظ استعماری قوتوں پہ غالب آکر اپنے بارڈر کا حق چھین لیں اور سابقہ طریقہ و نظام یا اپنے لیے ایک بہتر نظام و طریقہ تجویز کرکے قائم کریں۔ ورنہ خاموش تماشائی بن کر یہ سلسلہ برداشت کرتے رہیں تب تک جب تک فرشتے خود ایک بہترین نظام تیار کرکے نہ لائیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں